سوشل میڈیا اک چھری: چاہے پھل کاٹو یا کسی کی پیٹھ میں گھونپ دو
محمد فہیم
انٹرنیٹ کی ہر خاص و عام تک پہنچ کی وجہ سے ڈیجیٹل دور کا آغاز ہوا۔ اس دور میں جہاں ہر ایک چیز صرف ایک کلک پر دستیاب ہوئی وہیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت بھی محسوس ہوئی جہاں عوام اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔
ابتداء میں یاہو اور ہاٹ میل کی ای میل کے بعد چیٹ رومز کا آغاز ہوا جہاں عوامی رابطہ شروع ہوا اور اس عوامی رابطہ کو فیس بک نے دوام بخشا۔ فیس بک کے بعد کئی دیگر ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز آئیں تاہم ٹوئٹر نے اپنی چھاپ بٹھا دی جس کے بعد ٹوئٹر پر سلیبرٹیز اور دیگر اہم شخصیات عوام کی رسائی میں آ گئے۔ ایک جانب تو اس نے عوامی نمائندوں اور دیگر خواص کو عوام کے سامنے جواب دہ بنا دیا وہیں اس نے کئی مشکلات بھی کھڑی کر دی ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اس قدر اہم ہو گئیں کہ اب تو حکومتیں بنانے اور گرانے میں بھی ان کا کردار رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت جب گرنے لگی تو ٹویٹر کے ساتھ ان کی جنگ شدید ہو گئی۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی سوشل میڈیا کو اپنا اصلی ہتھیار ہی قرار دیا ہے۔ حال ہی میں عمران خان کے پہلے ٹوئٹر سپیس سے قبل ان کی اپنی سوشل میڈیا سے ہونے والی گفتگو وائرل ہو گئی جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا ہمارے لئے انتہائی اہم ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار کوئی نہیں کر سکتا تاہم اس کے نقصانات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی اس کا تدارک کرنے کو تیار نہیں ہے۔
درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک سوشل میڈیا انفلوینسر شفیق گگیانی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی مدد سے جو بندہ اپنی بات کسی خاص و عام تک پہنچانا چاہتا ہے تو وہ کر سکتا ہے لیکن اس میں کئی مسائل موجود ہیں، ہر بندے کو موبائل مل گیا اور اس نے اپنا مواد شیئر کرنا شروع کر دیا جس نے فیک یعنی جعلی خبروں کیلئے گنجائش پیدا کر دی۔ اسی طرح ہیٹ مٹیریل یعنی نفرت انگیز مواد کا ڈالا جانا بھی انتہائی خطرناک ہے۔ سوشل میڈیا کی مدد سے رابطے بڑھنے چاہئے تھے لیکن یہاں نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال کے حوالے سے شفیق گگیانی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کے استعمال کو ایک نئی جہت بخشی ہے، اگر ان کے پاس سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید وہ اتنی بڑی تبدیلی کبھی نہیں لا سکتے تھے، اس وقت بھی سب سے زیادہ فالوورز اور سب سے زیادہ مﺅثر استعمال تحریک انصاف کا ہی ہے۔
سینئر صحافی اور کافی عرصہ سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے وابستہ انیلہ خالد کہتی ہیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایک بہترین موقع ہے تاہم اس پر برداشت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، اختلاف رائے برداشت کوئی نہیں کرتا اور انتہائی غیرمناسب اور غیرمہذب گفتگو شروع کر دی جاتی ہے۔
انیلہ خالد کے مطابق اس گفتگو کے اثر سے کوئی بچ نہیں سکتا اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، جو لوگ گالم گلوچ کا سہارا لیتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی اسی لئے وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، گھر بیٹھے لوگوں کو نفسیاتی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور سنگین نتائج سے ڈرایا جاتا ہے جو وہ شاید کر نہیں سکتے لیکن ان کے الفاظ کا اثر ہوتا ہے۔
انیلہ خالد سمجھتی ہیں کہ ایسے رویوں کو ختم کرنے کیلئے سیاسی رہنماﺅں کو آگے بڑھنا ہو گا، عمران خان ایسے رہنما ہیں جنہیں لوگ مانتے ہیں انہیں اپنے جلسوں میں یہ بتانا ہو گا کہ کس طرح اختلاف رائے کو بھی جگہ ملنی چاہئے۔
ماہر تعلیم اور سوشل میڈیا کے محقق ڈاکٹر محمد نواز کہتے ہیں کہ تحریک انصاف سوشل میڈیا کا استعمال جانتی ہے، ایک منظم طریقے سے، ہیش ٹیگ کس طرح بنانا ہے اور اسے کس طرح پھیلانا ہے یہ طریقہ پی ٹی آئی کو آتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔ دیگر جماعتوں نے سوشل میڈیا کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہئے تھی تاہم ڈاکٹر محمد نواز کہتے ہیں کہ انتخابات قریب آتے ہی ہمیں ایک شفٹ نظر آئے گا جب باقی جماعتیں بھی اسی پلیٹ فارم کو استعمال کریں گی اور اپنا پیغام پہنچائیں گی۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل یاسر خٹک کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور لعن طعن اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ لوگ اپنے حقوق سے بے خبر ہیں، اس حوالے سے مﺅثر قانون موجود ہے جس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
یاسر خٹک کے مطابق چھری کا استعمال پھل کاٹنے کیلئے بھی ہوتا ہے اور کسی کو نقصان پہنچانے کیلئے بھی ہوتا ہے اب استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس کا استعمال کرتا ہے پریونشن الیکٹرانک کرائمز ایکٹ، سائبر کرائمز ایکٹ اور ہتک عزت کا قانون موجود ہے، آزادی رائے کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کوئی دوسرے کی تذلیل شروع کر دے اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو عدالتیں موجود ہیں اور انتہائی سخت قانون کے تحت ایف آئی اے اپنا کام کرتے ہوئے مختلف قوانین کی روشنی میں کیس تیار کرتی ہے۔