عدم اعتماد اور گورنروں کے استعفے: کیا پی ٹی آئی کو افسوس ہو رہا ہے؟
محمد فہیم
سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی دیر تھی کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں یعنی عوامی عہدوں پر تعینات افرادنے استعفے دینا شروع کر دیئے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفے تو نئے سپیکر نے واپس کر دیئے تاہم گورنرز کے استعفے صدر پاکستان نے منظور کر لئے اور شاید پارٹی لائن بھی یہی تھی لیکن جذبات میں لئے گئے فیصلوں پر اکثر افسوس ہی ہوتا ہے اور کچھ ایسا ہی گورنرز کے استعفوں کے بعد بھی کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے چاروں صوبوں میں گورنر تھے اور جب پارٹی سے وفاداری کی بات آئی تو گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان، گورنر بلوچستان ظہور آغا اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے فوری استعفے صدر کو ارسال کر دیئے جو اب صدر نے منظور بھی کر لئے ہیں۔ ان استعفوں کی منظوری نے ملک بھر میں آئینی بحران پیدا کر دیا ہے جبکہ وفاق میں صدر اور وزیر اعظم کے مابین ہم آہنگی کے فقدان نے اس آئینی بحران کو مزید ہوا دے دی ہے۔
سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کہتے ہیں کہ شاہ فرمان کے استعفے کا سن کر حیرانگی ہوئی بطور گورنر انہیں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تھی، ان کا استعفی دینا نہ صرف خیبر پختونخوا کی عوام بلکہ خیبر پختونخوا کی حکومت کیلئے بھی امتحان بن گیا ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا نے بتایا کہ گورنر کا عہدہ علامتی عہدہ نہیں ہے اور جو اسے علامتی سمجھتے ہیں یہ ان کی بھول ہے، گورنر کے ایک دستخط نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کا کوئی طول مدتی فیصلہ توثیق حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے نافذ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح اب نئے گورنر کی تقرری میں ڈیڈ لاک کا مسئلہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو ہی درپیش ہو گا۔ اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق سندھ میں گورنر کا استعفیٰ سمجھ میں آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے مسائل کھڑے کئے گئے لیکن خیبر پختونخوا میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت کیلئے مسائل کھڑے کرنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
سینئر قانون دان اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ملک محمد اجمل خان کہتے ہیں کہ نئے گورنر کی تقرری کا اختیار صدر پاکستان کو حاصل ہے، صدر پاکستان وزیر اعظم کی سفارش پر گورنر کی تقرری کریں گے، اس وقت صدر اور وزیر اعظم کے مابین جو حالات ہیں ممکن نہیں لگ رہا کہ نئے گورنر کی تقرری کر دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت تین صوبوں کے گورنر نہیں ہیں اور سپیکر اضافی ذمہ داری نبھا رہے ہیں لیکن آئین میں گورنر کے بیمار یا ملک سے باہر ہونے پر سپیکر کو اضافی ذمہ داری دینے کا ذکر ہے، گورنر کے استعفیٰ کے بعد سپیکر کو قائم مقام گورنر کی ذمہ داری دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا سپیکر کی بطور گورنر تمام امور کی انجام دہی کو آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ کی رائے دونوں سے مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ گورنر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے انضمام سے قبل گورنر قبائلی اضلاع کا چیف ایگزیکٹو تھا لیکن اب تو وہ معاملہ بھی نمٹ گیا لہٰذا اب گورنر صرف یونیورسٹیوں کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتا ہے یا صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرتا ہے اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، اسی طرح قائم مقام گورنر یعنی سپیر صوبائی اسمبلی انہی امور کی انجام دہی کر سکتا ہے جو گورنر کرتا ہے اور اس کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ انجینئر شوکت اللہ کے مطابق گورنر کا عہدہ خالی ہونے سے کوئی آئینی یا انتظامی بحران پیدا نہیں ہو گا اور معاملات آسانی سے سنبھال لئے جائیں گے۔
اس وقت ملک میں تین صوبے بغیر گورنر کے کام کر رہے ہیں، اسی طرح گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کیخلاف وفاقی حکومت سمری صدر پاکستان کو ارسال کر چکی ہے جس پر کسی قسم کی کارروائی نہ ہونے پر دو ہفتوں کے اندر اندر اسے منظور شدہ تسلیم کر لیا جائے گا اور تمام صوبوں کے گورنر کے عہدے خالی ہو جائیں گے۔
صدر پاکستان کو ہٹانے کیلئے نئی حکومت کے پاس ایوان بالا اور زیریں میں مطلوب تعداد بھی نہیں ہے جس سے صدر پاکستان کی موجودگی موجودہ حکومت کیلئے کئی مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ صوبوں میں گورنرز کی تقرری کیلئے وزیر اعظم کی سفارش لازمی ہے اور ایسی کوئی صورت اس وقت نظر نہیں آتی کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر ڈاکٹر عارف علوی یہ معاملہ انجام دے سکیں گے تاہم یہ بحران تب شدت اختیار کر لے گا جب خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو طویل مدتی فیصلے لینے ہوں گے اور ان میں آئندہ بجٹ بھی شامل ہے، بجٹ میں ابھی ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہے تاہم یہ جنگ اگر ڈیڑھ ماہ تک جاری رہی تو ملک میں آئینی اور انتظامی بحران اس قدر شدید ہو جائے گا کہ عام شہری براہ راست متاثر ہونا شروع ہو جائیں گے۔