وزیر اعظم شہباز شریف۔۔! یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے
محمد فہیم
میاں محمد شہباز شریف 174 ووٹ لے کر پاکستان کی تاریخ کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کیلئے یہ عہدہ کسی اعزاز سے کم نہیں تاہم جن حالات سے پاکستان ماضی قریب اور ماضی بعید میں گزرا ہے اس کے بعد شہباز شریف کیلئے یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ثابت ہو سکتا ہے۔
میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے اپنے عہدے کا حلف لے لیاجس کے بعد ان کی آئینی مدت شروع ہو گئی۔ آئین کے مطابق شہباز شریف 12 اگست 2023 تک بطور وزیر اعظم کام کر سکیں گے جو موجودہ ایوان کی آئینی مدت ہے۔ موجودہ ایوان نے 13 اگست 2018 کو حلف لیا تھا اور 12 اگست 2023 تک اس کی مدت مکمل ہو جائے گی تاہم ضروری نہیں ہے کہ شہباز شریف ان 16 ماہ تک وزیر اعظم رہیں اور یہ حکومتیں قائم رہے۔ ان کا دور اقتدار اس سے کم بھی ہو سکتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انہیں کئی محاذوں پر درپیش چیلنجز ہیں۔
اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کا چیلنج
نئی حکومت میں اس وقت 9 جماعتیں شامل ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل (جمعیت علماء اسلام)، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، مسلم لیگ ق (دو ارکان)، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ اسی طرح محسن داوڑ، علی وزیر اور اسلم بھوتانی آزاد حیثیت میں حکومت کے اتحادی ہیں۔
شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم گزشتہ رات 9 بجے حلف لیا جبکہ ان کا انتخاب سہہ پہر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوا۔ انتخاب اور حلف لینے کے درمیان چند گھنٹوں میں ہی ایک اتحادی جماعت کا گلہ سامنے آ گیا اور یہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ کراچی کے سابق میئر اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ ابھی سے شہباز شریف سے ناراض ہو گئے ان ممبران کو راضی رکھنا اور ایک ساتھ ایک لڑی میں پروئے رکھنا انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ حکومت کے ان اتحادیوں کا مرکز پاکستان کی ترقی سے زیادہ عمران خان مخالف ہے اور یہ غیرفطری اتحاد 16 ماہ تک قائم رکھنا شہباز شریف کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔
سفارتی تعلقات کا چیلنج
8 مارچ کو سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد 10 اپریل تک اس تحریک پر ووٹنگ کے وقت تک معاملات لمحہ بہ لمحہ بدلتے رہے ہیں۔ اتنی تیزی سے معاملات کی تبدیلی شاید پاکستانی عوام نے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھی ہو۔ ان 35 دنوں میں سفارتی سطح پر پاکستان کے تشخص کو جو نقصان پہنچا ہے اسے دوبارہ سے بحال کرنا میاں محمد شہباز شریف کیلئے انتہائی بڑا چیلنج ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے سے لے کر یورپ اور فیٹف ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ان حالات کو دوبارہ سے بحال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اسی طرح ان ملکوں کے ساتھ حالات خراب ہونے کے دوران پاکستان چین اور روس کے انتہائی قریب چلا گیا ہے جو ان ممالک کو قبول نہیں ہے۔ امریکہ، چین اور روس کے مابین ایک توازن کے ساتھ تعلقات رکھنا پاکستان کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ سابق وزیر اعظم نے جس طرح سے بھارت کی تعریفوں کے پل باندھے اس سے کشمیر کاز کو بھی انتہائی نقصان پہنچا ہے تاہم شہباز شریف کیلئے سفارتی سطح پر امریکہ اور یورپ سے تعلقات کی بہتری جتنی مشکل ہے اتنی ہی خطرناک بھی ہے کیونکہ اگر ان کے تعلقات میں بہتری آئی تو سیاسی محاذ پر شہباز شریف کو نقصان ہو سکتا ہے لہٰذا شہباز شریف کیلئے انتہائی خاموشی اور طریقے سے حالات کو نارمل کرنا سب سے بڑا معرکہ ہو گا جسے وہ شاید سر کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے پاس قلیل وقت ہے۔
سیاسی محاذ پر تحریک انصاف کا چیلنج
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دیئے ہیں جس نے نو منتخب حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سب سے پہلے اگر وزیر اعظم شہباز شریف سفارتی سطح پر امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات بہتر کر گئے تو سیاسی سطح پر انہیں شدید دھچکا پہنچے گا کیونکہ تحریک انصاف یہ بیانیہ لے کر نکلی ہے کہ نئی حکومت امپورٹڈ ہے ایسے میں سیاسی محاذ پر شہباز شریف کی ناکامی کا مطلب عام انتخابات میں دوبارہ سے تحریک انصاف کی کامیابی ہے۔ اسی طرح پشاور سے تحریک انصاف نے اپنے پاور شو کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا ہے تو ایک بار پھر عمران خان پرانی طرز پر سیاست کا آغاز کریں گے جس کا سامنا کرنا اور اس پر بڑے دل کا مظاہرہ کرنا شہباز شریف کیلئے انتہائی کٹھن ہو گا۔ ایوان کے اندر تحریک انصاف کا نہ ہونا حکومت کیلئے انتہائی سنہری موقع ہے کہ وہ ضمنی انتخاب میں مزید نشستیں حاصل کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کرے اور تحریک انصاف کے حلقوں میں اپنے ارکان منتخب کرا کے ان حلقوں میں اپنی پارٹی کیلئے بنیاد بنائے۔ تحریک انصاف کے بغیر اس ایوان میں مسلم لیگ اور اتحادی وہ تمام قوانین پاس کرا لیں گے جو انہیں فائدہ دیں گے اور عین ممکن ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد آئینی ترامیم بھی کرا لی جائیں تاہم ایوان سے باہر عمران خان موجودہ حکومت کیلئے مزید خطرے کی علامت ہے۔
معاشی محاذ پر درپیش چیلنج
شہباز شریف کا نام بطور وزیر اعظم سامنے آنے کے بعد پاکستان میں معاشی طور پر اعشاریوں میں بہتری سامنے آئی ہے۔ شہباز شری۔ف نے اپنی پہلی تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا جبکہ کم سے کم اجرت بھی 25 ہزار روپے کر دی جبکہ سستے آٹے کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔ ان سب سے یہ بات تو واضح ہے کہ معاشی طور پر شہباز شریف کے پاس پلان موجود ہے، ڈالر کی قیمت میں 8 روپے کمی اور سٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی سے معاشی محاذ پر حالات بہتر ہونے کی امید ہے لیکن کورونا اور ٹیکس اصلاحات کے بغیر چلائے جانے والے ملک کیلئے دوبارہ معاشی طور پر حالات کی بہتری جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور مہنگائی کا توڑ جب تک نہیں نکالا جائے گا تب تک ان کی آئندہ انتخابات میں کامیابی ممکن نہیں ہے ایسے میں مزدور طبقے کا ووٹ اور سپورٹ حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے مہنگائی کا جن قابو کرنا ہو گا۔
سماجی محاذ پر درپیش چیلنج
تحریک انصاف کے اپوزیشن میں جانے سے سماجی محاذ دوبارہ کھل گیا ہے تحریک انصاف کے حکومت میں ہونے پر بھی یہ محاذ موجود تھا تاہم اس کی شدت اتنی نہیں تھی جتنی اس بار ہو گی۔ اتوار کی شام تحریک انصاف کے ورکرز سڑکوں پر نکل آئے، پشاور سے کراچی اور حتیٰ کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے عمران خان کے حق میں احتجاج کیا جو ان کا جمہوری حق تھا تاہم اس احتجاج میں جو زبان استعمال کی گئی اور جس طرح سے مختلف اداروں اور اہم شخصیات سمیت سیاسی رہنماﺅں کیلئے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کئے گئے، یہ ایک خطرناک روایت ڈال رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کیلئے سماجی محاذ پر کامیابی حاصل کرنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ شہباز شریف ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں تاہم ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں ایک ہی وقت میں ایک سیاسی بصیرت، معاشی نظر، سفارتی سوچ اور سماجی احترام کا مظاہرہ کرنا ہو گا لیکن ان سب کے ساتھ جو فائدہ شہباز شریف کو حاصل ہے وہ ٹیم کا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس ان تمام محاذوں پر لڑنے اور کامیاب ہونے والی ٹیم موجود ہے جو شہباز شریف کا یہ کام نسبتاً آسان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔