عدم اعتماد: قانون بنانے والے ہی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں!
ماخام خٹک
بنیادی طور پر پارلیمنٹ ہی قانون بنانے، قانون کو ختم کرنے اور قانون میں ترمیم کرنے کا مجاذ ادارہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون کی خلاف ورزی بھی وہی لوگ کرتے ہیں جو قانون جانتے، بناتے یا طاقت رکھتے ہیں۔
اب عجیب بات یہ ہے کہ جو قانون بناتے ہوں، جو قانون جانتے ہوں بھلا انہیں بھی قانون کی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن چونکہ وہ جاننے کی وجہ سے اپنی اپنی تشریحات یا قانون کو اپنے اپنے مقاصد و منشا کے لئے استعمال کرتے ہیں تو پھر ظاہر ہے ضروری نہیں کہ جو فریق آئین کے کسی آرٹیکل کا مطلب لے رہا ہو وہی مقصد دوسرا فریق بھی لے رہا ہو تو ایسی صورت میں مسئلہ پھر کسی تیسرے فریق کے پاس جائے گا تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالے یا تصفیہ کرے۔ تو ایسی صورت میں ہمارے پاس پارلیمنٹ کے مسئلے کے تصفیے یا کسی آئینی موشگافیوں کے لئے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ جیسے غیرجانبدار ادارے موجود ہیں۔
اتوار کے دن وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پہلے سے پیش شدہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی جس کے لئے باقاعدہ اجلاس کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام، قرآن پاک کی تلاوت و ترجمہ پھر نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی لیکن اس سے پہلے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوتی حکومتی بینچز پر بیٹھے وزیر قانون فواد چودھری نے آرٹیکل پانچ پر پہلے عمل درآمد کا کہا جس پر ڈپٹی سپیکر نے، سپیکر کے نام سے رولنگ دی (یاد رہے کہ سپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک ٹیبل تھی) کہ آرٹیکل پانچ کے تحت یہ عدم اعتماد کی تحریک غیرآئینی اقدام ہے لہٰذا اس عدم اعتماد کی تحریک کو غیرآئینی قرار دے کر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے اپنے طور پر سابق سپیکر ایاز صادق کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنا کر اپنی تعداد عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں شو کر کے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب قرار دیا۔
اس دوران عمران خان نے قوم سے خطاب میں صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کا کہا جس پر صدر مملکت نے من و عن عمل کر کے اسمبلیاں توڑنے کا حکمنامہ جاری کیا جس کے بعد ایک شدید آئینی بحران پیدا ہونے کے حالات سامنے آئے۔
اپوزیشن نے اس آئینی بحران کو چیلنج کرنے کے لئے اتوار کے دن سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے، سپریم کورٹ کے تالے کھلوائے گئے۔ چیف جسٹس کی باہمی مشاورت کے بعد تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس، بعد میں اپوزیشن کی درخواست پر نوٹس لیا اور کسی بھی سرکاری ادارے کو غیرآئینی اقدام سے منع کیا گیا۔ البتہ عدم اعتماد کی اس آئینی پٹیشن پر پیر کے دن ایک بجے تک کارروائی ملتوی صادر فرمائی۔
اب اصل میں جو آئینی آرٹیکلز زیر بحث آئیں گے وہ آرٹیکل پانچ، آرٹیکل چھ، آرٹیکل اڑتالیس، آرٹیکل اٹھاون، آرٹیکل چھیاسٹھ، آرٹیکل انہتر، آرٹیکل چورانوے، آرٹیکل پچانوے اور آرٹیکل دو سو چوبیس اے ہوں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ آرٹیکلز کیا کہتے ہیں:
آرٹیکل پانچ سب آرٹیکل ایک: آئین سے وفاداری ہر شہری پر فرض ہے۔
سب آرٹیکل دو: دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو ـ واجب التعمیل ذمہ داری ہو گی۔
آرٹیکل چھ (۱) کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر آئینی ذریعے سے دستور کی تشریح کرے، یا معطل کرے یا التواء میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کرے یا معطل یا التواء میں رکھے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔
۲۔ کوئی شخص جو شق (۱) میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا یا شریک ہو گا اس طرح سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔
۲. (الف) شق ۱(۱) یا شق (۲) میں درج شدہ سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے بشمول عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔
۳. مجلس شوریٰ ( پارلیمنٹ) بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہو ـ
آرٹیکل اڑتالیس (ب) صدر اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں عمل اس پر اور کابینہ یا وزیر اعظم کے مشورے کی مطابقت میں کرے گا۔
مگر شرط یہ ہے کہ پندرہ دنوں کے اندر صدر کابینہ یا جیسی بھی صورت حال ہو، وزیر اعظم سے یا تو عام طور پر یا بصورت دیگر مذکورہ مشورے پر دوبارہ غور کرنے کے لئے کہہ سکے گا (دس دنوں کے اندر) اور صدر مذکورہ دوبارہ غور کرنے کے بعد دیئے گئے مشورے کے مطابق عمل کرے گا۔
۵. جبکہ صدر قومی اسمبلی تحلیل کرے شق (۱) میں شامل کسی امر کے باوجود وہ
الف نگراں کابینہ کا تقرر آرٹیکل دو سو چوبیس یا جیسی بھی صورت ہو آرٹیکل دو سو چوبیس الف کی تصریحات کے مطابق کرے گا۔
آرٹیکل ۵۸ (۱) صدر قومی اسمبلی تحلیل کر سکے گا اگر وزیر اعظم اسے بایں طور پر مشورہ دے اور قومی اسمبلی تاوقتیکہ اس سے قبل تحلیل نہ کر دی گئی ہو وزیر اعظم کی طرف سے بایں طور پر مشورہ دیئے جانے کے بعد اڑتالیس گھنٹوں کے خاتمے پر تحلیل ہو جائے گی۔
تشریح: اس آرٹیکل میں وزیر اعظم کے حوالے میں کسی ایسے وزیراعظم جس کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے لئے قرارداد کا نوٹس دے دیا گیا ہو لیکن اس پر رائے دہی نہ کی گئی ہو یا جس کے خلاف ایسی کوئی قرارداد منظور کی جا چکی ہو یا جو استعفیٰ دینے کے بعد یا قومی اسمبلی تحلیل ہو جانے کے بعد اس عہدے پر برقرار ہو حوالہ شامل نہیں سمجھا جائے گا۔
۲. آرٹیکل اڑتالیس کی شق (۲) میں شامل کسی امر کے باوجود صدر بھی اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکے گا جبکہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور کیا جا چکا ہو، اس کے بعد قومی اسمبلی کے کسی دوسرے رکن کا دستور کے احکام کے مطابق قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد رکھنے کا امکان نہ ہو جس طرح کہ اس غرض سے طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں معلوم ہو۔
آرٹیکل ۶۶ دستور اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے قواعد و ضوابط کے تابع مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں تقریر کی آزادی ہو گی اور کوئی رکن مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں کی ہوئی کسی تقریر یا دیئے ہوئے کسی ووٹ کی نسبت کسی عدالت میں کسی قانونی کارروائی کا مستوجب نہیں ہو گا اور کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی طرف سے یا اس کے اختیارات کے تحت کسی رپورٹ، مضمون یا کارروائی کی اشاعت کی نسبت بایں طور مستوجب نہیں ہو گا۔
۳. مگر شرط یہ ہے کہ ایسا قانون
الف: کسی عدالت کو یہ اختیار دے سکے گا کہ وہ ایسے شخص کو سزا دے جو شہادت دینے یا دستاویزات ہیش کرنے سے انکار کرے۔
ب: اور ایسے فرمان کے تابع مؤثر ہو گا جو صدر کی طرف سے خفیہ معاملات کو افشاء ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے بنایا گیا ہو۔
۴. اس آرٹیکل کے احکام ان اشخاص پر جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں تقریر کرنے یا بصورت دیگر اس کی کارروائی میں حصہ لینے کا حق رکھنے سے اس طرح اطلاق پذیر ہو گا جس طرح وہ ارکان پر اطلاق پذیر ہوتے ہیں۔
آرٹیکل ۹۴: صدر وزیر اعظم سے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لئے کہہ سکے گا جب تک اس کا جانشین وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہ ہو جائے۔
آرٹیکل ۹۵ (۱) وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد جسے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم بیس فی صد نے پیش کیا ہو قومی اسمبلی کی طرف سے منظور کی جا سکے گی۔
(۲) شق (۱) میں محولہ کی قرارداد پر اس دن سے تین دن کی مدت کے خاتمے سے پہلے سات دن کی مدت کے بعد ووٹ نہیں لئے جائیں گے۔ جس دن مذکورہ قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہو۔
(۳) شق (۱) میں محولہ کسی قرارداد کو قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا جبکہ قومی اسمبلی سالانہ میزانیہ کے کیفیت نامے میں پیش کردہ رقوم کے مطالبات پر غور کر رہی ہو۔
(۴) اگر شق (۱) میں محولہ قرارداد کو قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت سے منArظور کر لیا جائے تو وزیر اعظم عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔
آرٹیکل ۲۲۴ الف (۴) موجودہ وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعلیٰ نگراں وزیر اعظم یا نگراں وزیر اعلیٰ جو بھی صورت ہو، کے تقرر تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔