صرف چور چور کی صدائیں: یہ ہم جا کس طرف رہے ہیں؟
ساجد ٹکر
کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی مادی بنیادوں پر ترقی نہ کر جائے لیکن اگر وہاں اخلاقیات ناپید ہوں تو یا تو یہ ترقی جھوٹی ہے اور یا بہت قلیل المدتی۔
مشرقی معاشروں کا حسن ہی اخلاقیات اور بڑے چھوٹے کا خیال رکھنا ہے۔ تمیز، تہذیب اور اخلاق ہی وہ اقدار ہیں جن پر مشرقی معاشرے کے حسن کی عمارت کھڑی ہے۔ یہی خوبیاں اگر کسی معاشرے کی سیاست میں سرایت کر جائیں تو پھر وہاں ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
برصغیر کی سیاست میں اخلاقیات اور اقدار ایسی خوبیاں ہیں جن کی ساری دنیا قائل ہے۔ یہاں اختلاف رکھا بھی گیا ہے تو تمیز اور اخلاق کے دائرے میں۔ لوگوں نے بدترین مخالفین کے ساتھ بھی مخالفت کی ریت برقرار رکھی ہے لیکن کبھی ذاتیات پر اتر کر ان کی بے عزتی کی کوشش نہیں کی ہے۔ ماضی کی طرف مزید نہیں جانا چاہتا کیونکہ ماضی کا ہم سب کو علم ہوتا ہے اور اگر چلے بھی جائیں تو میں اسے ضیاع وقت تصور کرتا ہوں کیونکہ ہم ماضی سے سیکھنے والے کب ٹھہرے۔
بات کریں گے اپنی سیاست کی، اپنے ملک کی اور موجودہ حالات کی۔ سب کو علم ہے کہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا رہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ یہ اقدام قوم کے وسیع تر مفاد میں اٹھا رہے ہیں۔ عدم اعتماد کامیاب ہوتا ہے یا نا کام، بہت جلد سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ ہمارا موضوع عدم اعتماد ہے اور نہ اس کی ناکامی یا کامیابی۔ ہمارا موضوع ہے ہماری اخلاقی پستی، ہماری کمزوری، ہماری تربیت اور ہماری ان محاذوں پر ناکامی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ جوں جوں عدم اعتماد آگے بڑھ رہا ہے اور اپوزیشن بیٹھکوں پر بیٹھکیں سجائے جا رہی ہے تو اسی طرح وزیراعظم عمران خان بھی جلسے بھی کر رہے ہیں اور ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ جس طرح اپوزیشن کا جلسہ جلوس کرنا حق ہے بالکل اسی طرح عمران خان کا بھی حق ہے کہ جلسے کریں۔ ہمارا جمہوری نظام ہمیں حق بھی دیتا ہے اور اختیار بھی کہ اپنی بات کریں، ایک دوسرے سے اختلاف کھل کر کریں اور ایک دوسرے کے نقائص اور کمزوریوں پر بے لاگ تبصرہ کریں۔
لیکن یہی جمہوریت ایک طرف اگر اختلاف رکھنے کو حسن جمہوریت گردانتا ہے تو دوسری جانب برداشت اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کا بھی درس دیتا ہے۔ اور جب صورتحال گھمبیر ہو، سیاسی چپقلش زیادہ اور مخالفین ایک دوسرے کے خلاف تلوار کو نیاموں سے نکل کر کھڑے ہوں تو تب کسی ملک کا سربراہ چاہے صدر ہو یا وزیراعظم، وہ حالات کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے، مخالفین سے ملنے اور بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، خود پر جبر کر کے حالات کو موافق کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ جمہوریت کی اہم بات ملک کو بچانا، لوگوں کی خدمت کرنا اور لوگوں کے کام آنا ہوتا ہے۔ مخالفین کا کام تو ہر حال میں مخالفت کرنا ہوتا ہے لیکن حکومت کا کام، فرض اور نیچر مختلف ہوتی ہے۔
حکومت کو ملک بھی چلانا ہوتا ہے اور اپوزیشن کو سننا بھی پڑتا ہے، عوام کا اعتماد بھی جیتنا ہوتا ہے اور عوام کی خدمت بھی کرنا ہوتی ہے۔ ان چیزوں کی ہم حکمرانوں سے اس لئے بھی توقع کرتے ہیں کیونکہ وہ سیاسی لوگ ہوتے ہیں اور سیاست ایک علم ہے جو کہ انسان کو صبر، حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ملک کو چلانے کا ہنر دیتا ہے۔ اگر کسی حکمران میں یہ خوبیاں نہیں تو یا تو وہ سیاستدان نہیں اور یا پھر وہ سیاست کر کے حکمران نہیں بنا ہے بلکہ کسی اور طریقے سے در آیا ہے۔
سیدھی بات کریں تو آج کل وزیراعظم عمران اپنے مخالفین کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کسی طور بھی سیاسی ہے اور نہ پارلیمانی۔ ان کو سن کر ایسے لگتا ہے کہ وہ سیاست کی نرسری کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہیں۔ سیاستدان حالات کے تقاضوں کے مطابق بات کرتے ہیں، مشکل سے مشکل حالات میں بھی کشتیاں نہیں جلاتے اور کہیں نہ کہیں ان کو امید کی ایک کرن ضرور نظر آتی ہے۔
عمران خان کے موجودہ بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مکمل طور پر ناامید ہو چکے ہیں کیونکہ وہ جس لہجے میں بات کر رہے ہیں اس سے ان کا غصہ صاف نظر آ رہا ہے۔ کیا کسی حکمران کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو "ڈیزل”، "چور”، "بیماری”، "بھگوڑا” اور "ڈاکو” جیسے القابات سے یاد کرے۔ کیا کوئی حکمران اس حد تک جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ایک سیاسی مخالف کی زبان پھسلنے کی غلطی کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہ ہو جبکہ حال خود ان کا یہ ہو کہ لفظ "روحانیت” اور "رحمت اللعالیمن” کو بھی پڑھنے میں ان کو دشواری ہو۔
"میں خطرناک ہو جاؤں گا”، "یہ لوگ میرے بندوق کے نشانے پر ہیں”، کیا سیاستوں اور جمہوریتوں میں ایسی باتیں زیب دیتی ہیں؟ کیا پیغام ہم اپنے ورکروں کو دے رہے ہیں۔ کیا تربیت ہم ان کی کر رہے ہیں؟
کہیں پڑھا تھا کہ برصغیر کے مشہور عالم دین مرحوم مولانا طاہر المعروف مولانا پنج پیر صاحب کو قیوم خان نے پیغام بھیجا تھا کہ باچا خان کے خلاف کفر کا فتوی لگائیں تو مولانا پنج پیر نے ان کو جواب بھیجا تھا کہ باچا خان تو دور کی بات ہے میں تو آپ کے خلاف بھی کفر کا فتوی نہیں لگا سکتا۔
ایک یہ لوگ تھے اور ان کی اخلاقیات تھیں اور ایک آج کل کا سیاسی ماحول ہے جس میں کہ کفر اور یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کے فتوؤں کی بھرمار ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم سیاست کر رہے ہیں یا سیاست کے نام پر گالم گلوچ کر رہے ہیں، ہم ملک کی خدمت کر رہے ہیں یا عوام کے دلوں میں نفرت کی آگ لگا رہے ہیں، ہم سیاست کی خدمت کر رہے ہیں یا لوگوں کے دلوں میں سیاست کو برباد کر رہے ہیں، ہم جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں یا جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ہم معاشی سطح پر اگر کمزور ہو گئے تو دوبارہ اٹھ سکتے ہیں۔
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو بڑے شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا لیکن آج جاپان دنیا کا معاشی پہلوان ہے لیکن اگر ہم اخلاقی بنیادوں پر گر گئے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ! کیونکہ اخلاقی پستیوں سے نکلنا پھر آسان نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی اناؤں، مفادات اور خود سے نکلنا ہو گا۔
ہم اگر چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے، سیاست کی خوشبو پھیلے، جمہوریت تگڑی ہو جائے اور ہماری عوام دیگر اقوام کی طرح خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو تو ہمیں سب سے زیادہ فوکس اخلاقیات پر دینا ہو گا، ہمیں ایک ایسی نسل پروان چڑھانا ہو گی جو سیاسی اخلاقیات کی امین ہو اور جو مخالفت کرے بھی تو محبت کے گل کھلے۔
ہمارا یہ مقصد بالکل بھی نہیں کہ ہم سیاست میں اختلاف ہی نا رکھیں، بالکل نہیں، اختلاف رکھیں لیکن اپنے لئے نہیں، اپنی پارٹی اور اپنی حکومت کے لئے نہیں بلکہ اس ملک اور عوام کے لئے اختلاف رکھیں۔ ایک دوسرے پر طنز کریں لیکن کام کی بنیاد پر کریں۔ اپنے کارناموں کو سامنے رکھ بات کریں۔
چار سال سے صرف اور صرف چور چور کی صدائیں ہیں لیکن ایک بھی چور پکڑا نہیں گیا، بس نفرتیں ہیں کہ پروان چڑھ رہی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ لوگ عوام کو اصولی سیاست سے دور لے کر جانا چاہتے ہیں۔ عوام مگر باشعور ہیں، کوئی سامنے آئے اور ان کے سامنے اصولی بات کرے تو میرا خیال ہے کہ عوام ان کی بات سنیں گے۔ لیکن ہم اگر اس ڈگر پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ راہوں، گلیوں کوچوں، گھروں اور گاڑیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مشت و گریبان ہوں گے کیونکہ صبر اور برداشت کی قوت ختم ہو گی اور ہر بندہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار بیٹھا ہو گا۔