سیاست

اپوزیشن رہنماؤں کی مسکراہٹ، وزیر اعظم کے چہرے پر گھبراہٹ کس بات کی غماز ہے؟

محمد فہیم

پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کیلئے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرلیا۔ ان سطور کی اشاعت تک عین ممکن ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جا چکی ہو گی اور اپوزیشن اپنی فتح کیلئے بے تاب ہو گی۔

عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد اپوزیشن کیلئے سب سے بڑا امتحان 173 کا نمبر پورا کرنا ہے اور ظاہر ہے جب مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور نواز شریف عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ کر چکے ہیں تو انہیں یہ یقین بھی ہے کہ ان کے پاس یہ مطلوبہ نمبرز پورے ہیں بلکہ یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ اضافی نمبرز حاصل کئے جائیں تاکہ ناکامی کا اگر کچھ امکان بھی ہے تو اسے ختم کر دیا جائے تاہم یہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے ۔

قومی اسمبلی میں اس وقت 341 ارکان ہیں، ہنگو سے تحریک انصاف کے خیال زمان کے انتقال کے باعث ایک نشست خالی ہے۔ ان 341 ارکان میں سے حکومت کو 179 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں 155 تحریک انصاف، 7 متحدہ قومی موومنٹ، 5، 5 مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی، 3 گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور ایک عوامی مسلم لیگ کا رکن شامل ہے۔ اسی طرح جمہوری وطن پارٹی کی ایک اور دو آزاد ارکان کی حمایت بھی حکومت کو حاصل ہے۔

دوسر جانب اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 159 ہے جن میں 84 مسلم لیگ ن، 56 پیپلز پارٹی، 14 متحدہ مجلس عمل، 4 بلوچستان نیشنل پارٹی اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کا رکن شامل ہے۔ ایوان میں جماعت اسلامی کا ایک رکن عبدالاکبر چترالی نہ حکومت کے ساتھ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے ساتھ جبکہ علی وزیر جیل میں قید ہیں اور ان کی اجلاس میں شرکت کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح محسن داوڑ بھی نہ حکومت کی صف میں کھڑے ہیں اور نہ ہی وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کے موڈ میں ہیں۔

جنگ اور جیو کے سینئر صحافی وقار ستی کے مطابق اپوزیشن کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے 173 کا ہندسہ پورا کرنا ہو گا جس کیلئے تحریک انصاف کے 24 ارکان ان کے ساتھ ہیں۔ ان 24 ارکان میں 16 مسلم لیگ ن، 6 پیپلز پارٹی اور دو جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ کے خواہشمند ہیں اور آئندہ انتخاب وہ انہی جماعتوں کے ٹکٹ سے لڑیں گے۔

وقار ستی کے نزدیک اس تمام کھیل میں پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ جس بنیاد پر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پاکستان جمہوری تحریک سے نکالی گئیں آج تمام جماعتیں اس پر قائل ہیں اور یہ پیپلز پارٹی کے بیانیہ کی جیت ہے۔

ملاکنڈ یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے چیئرمین اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مراد علی کے مطابق اپوزیشن کو ساڑھے تین سال سے مسلسل شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسے میں اگر ایک اور شکست اپوزیشن کو کھانا پڑ گئی تو ان کیلئے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ تحریک عدم اعتماد اس وقت اپوزیشن کی بقا کیلئے انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے اور اگر یہاں حکومت کامیاب ہو گئی تو پھر حکومت ہر حال میں اپنی مدت مکمل کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کا بیانیہ تقسیم درتقسیم کا شکار ہے اور اپنی تقسیم کے بعد اچانک متحد ہونے کا معاملہ عام فہم نہیں ہے، ایک عام شہری آج بھی یہی سوچ رہا ہے کہ چند ہفتے قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے اب اچانک ایک ساتھ کیسے ہو گئے تاہم یہ اتفاق محض اتفاق نہیں ہے۔

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ترجمان اسلم غوری اس تحریک کے حوالے سے انتہائی پراعتماد ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے 24 نہیں بلکہ 30 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل کرلی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کے چہروں پر مسکراہٹ اور وزیر اعظم عمران خان کے چہرے پر گھبراہٹ اس بات کی عکاس ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں، جلد ہی عمران خان گھر چلے جائیں گے۔ مستقبل کے حوالے سے اسلم غوری نے کہا کہ تمام کارڈز نہیں دکھا سکتے تاہم اپوزیشن نے ہوم ورک کر لیا ہے، حکومت کے خاتمے کے بعد تمام امور ایک متفقہ لائحہ عمل کے تتحت چلائے جائیں گے۔

اپوزیشن جیت کیلئے انتپائی پرامید ہے تاہم حکومتی ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ناراض ارکان کی فہرست مرتب کرتے ہوئے ان میں ایک بڑی تعداد سے رابطہ کر لیا گیا ہے اور انہیں راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق حکومت نے ارکان کو غیرحاضر رہنے کا بھی آپشن دے دیا ہے کیونکہ تحریک عدم اعتماد کے دوران اکثریت ثابت کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہو گی ایسے میں اگر حکومتی ارکان غیرحاضر بھی رہے تو اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے بعد 23 مارچ کو پاکستان جمہوری تحریک ایک بار پھر سے سڑکوں پر نظر آئے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button