پیکا آرڈیننس: شہری کیخلاف مقدمہ ثابت نہیں ہوا تو سزا کے چھ ماہ کون لوٹائے گا؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے صحافیوں نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے قانون پیکا 2016 میں ترمیم اور اس کے نفاذ کو غیرانسانی اور آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ قانون مکمل طور پر ختم کر کے آئین پاکستان میں درج قوانین پر عمل درآمد کیا جائے۔
منگل کو پشاور پریس کلب کے سامنے صحافیوں کی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پریس کلب کے صحافیوں نے پیکا قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور پیکا قانون کو کالا قانون قرار دیا۔
خیال رہے کہ پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت ہتک عزت کا دعوٰی دائر کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل یہ جرم قابل ضمانت تھا تاہم موجودہ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے اس کو نہ صرف ناقابل ضمانت بنایا بلکہ فوجداری قوانین کے زمرے میں داخل کر دیا جس کی سزا پانچ سال تک قید ہو سکتی ہے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین نے مظاہرے کے بعد ٹی این این کو بتایا کہ جب وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے تب وہ اس قانون کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد اس قانون کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج ان کی حکومت نے ترمیم کر کے اسے فوجداری مقدمات کے زمرے میں ڈال دیا۔
ناصر حسین نے کہا کہ صحافتی برادری سمیت پوری قوم جعلی خبروں کے خلاف ہے مگر قانون میں جعلی خبر کی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا "اب جعلی خبر کی تعریف کون کرے گا، ادارے کریں گے یا حکومت؟ اگر حکومت کرے گی تو صرف ان خبروں کو جعلی قرار دے گی جو اس پر تنقید کی شکل میں ہوں اس لئے ہمیں یہ قانون منظور نہیں ہے۔”
صدر کے ایچ یو جے نے مزید کہا کہ اس قانون کے تحت اگر حکومت کو کسی شہری کا تبصرہ جعلی لگا تو وہ اس کو چھ ماہ تک جیل میں رکھ سکتی ہے لیکن کل اگر شہری پر جعلی خبر کا مقدمہ ثابت نہیں ہوا تو اس کی سزا کے چھ ماہ کون لوٹائے گا؟
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت سے پیکا 2016 کی قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق اور آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
انسانی حقوق کی دونوں تنظیموں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پیکا میں ترمیم کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ترمیم کی جائے۔
پشاور پریس کلب کے سینئر ممبر اور تجزیہ کار شمس مومند نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آمرانہ آرڈیننس قرار دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی کے باوجود قانون میں ترمیم کرنے کا مقصد صحافیوں اور عوام کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
شمس مومند نے پیکا قانون کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو نہ صرف صحافیوں بلکہ ملک کی تمام جمہوری قوتوں، سول سوسائٹی، حکومت کی اتحادی جماعتوں اور عدلیہ نے خلاف آئین قرار دیا ہے، ”آزادی اظہار رائے کیلئے صحافیوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور اس کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔”
شمس نے کہا "فیک نیوز تو حکومتی وزراء اور مشیر خود پھیلانے میں مصروف ہیں، انہیں وزارت کو چھوڑ کر صرف جعلی خبریں پھیلانے کا کام سونپا گیا ہے، حکومت اگر واقعی چاہتی ہے کہ فیک نیوز کا خاتمہ ہو تو عملی طور پر اپنے وزراء اور ترجمانوں کو روکے۔”
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خود 23 فروری کے فیصلے میں اسے کالا قانون قرار دیا ہے اور سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روکا ہے اور عدالت نے بھی کہا تھا کہ اگر ایکشن لیا گیا تو ذمہ دار ایف آئی اے کے سربراہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 28 فروری کو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں پیکا کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس قانون کے تحت سوشل میڈیا پر پھیلنے والے ‘گند’ کی روک تھام کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب صحافیوں کی جائنٹ ایکشن کمیٹی نے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں، ان تمام جماعتوں نے بھی اسے غیرآئینی قانون قرار دیا ہے۔