یوکرائن پر حملہ اور وزیر اعظم کا دورہ روس: پاکستان دنیا کو پیغام کیا دینا چاہتا ہے؟
محمد فہیم
روس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یوکرائن پر حملہ کر دیا. یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان روس کے سرکاری دورے پر تھے اور یہ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا روس کا 22 سال میں پہلا دورہ ہے تاہم یہ دورہ خدشات اور خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔
یوکرائن پر روس کے حملے کے دورن یوکرائینی وزارت داخلہ کے مطابق 40 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ روس کی جانب سے یوکرائن کے فوجی مقامات کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان حملوں میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جا رہی ہے جبکہ یوکرائن کی جانب سے روس کے 5 جہاز مار گرانے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب طلباء سمیت سینکڑوں پاکستانی اس وقت یوکرائن میں پھنسے ہوئے ہیں جنہوں نے حکومت سے امداد کی اپیل بھی کی ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ کیف سے ترنول منتقل کیا گیا ہے اور پاکستانیوں کو وہاں پہنچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یوکرائن میں تعینات پاکستانی سفیر کے مطابق شہریوں کے انخلا کے لئے انتظامات جلد کئے جائیں گے۔
یوکرائن اور روس کا تنازعہ کیا ہے؟
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب روس تقسیم ہو گیا اور 15 ممالک نئے ممالک قائم ہو گئے تو روس نے تمام ممالک کو تسلیم کرتے ہوئے دو ممالک کی علیحدگی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان ممالک میں ایک بیلاروس اور دوسرا یوکرائن ہے۔ روس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ روسی قوم کی بنیاد یوکرائن کے ایک علاقے کاوی سے ملتی ہے لہٰذا وہ اس مقام کو کبھی بھی خود سے علیحدہ ہونے نہیں دیں گے۔
یوکرائن کا معاملہ دیگر ممالک سے مختلف ہے۔ جامعہ پشاور میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین ڈاکٹر حسین شہید سہروردی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ روس نے ہمیشہ اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے، ”یوکرائن کا ایک علاقہ 2014 میں جنگ کے نتیجہ میں روس کے قبضہ میں آ گیا تھا، اسی طرح حال ہی میں یوکرائن میں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں یوکرائن کے صدر نے روس کے اثر سے نکلنے کی کوشش کی ہے اور امریکہ کی قربت حاصل کرنے کیلئے تگ و دو شروع کر دی۔”
انہوں نے بتایا کہ یوکرائن اور روس دونوں ممالک مل کر یورپ کی گیس کی ضرورت پوری کر رہے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے یورپی ممالک یوکرائن سے اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں، جب سے یوکرائن آزاد ہوا ہے تب سے امریکہ کی کوشش رہی ہے کہ وہ یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنا لے۔ دوسری جانب روس یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ یوکرائن نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بن جائے، روس کو یہ لگتا ہے جیسے اس اقدام سے اس کے دشمن ممالک اس کی دہلیز پر آ جائیں گے۔
امریکہ اور یورپی یونین یوکرائن تنازعہ میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
یوکرائن پر ہونے والے حملے پر امریکہ نے انتہائی خدشات کا اظہار کیا ہے جبکہ نیٹو کی جانب سے اس تنازعہ کو جنگ نہیں بلکہ روس کی یوکرائن پر یلغار قرار دے دیا ہے۔ امریکہ میں وائس آف امریکہ کے سینئر صحافی رحمن بونیری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ اس تنازعہ کا سفارتی حل نکالا جائے، ‘یوکرائن اس وقت نیٹو کا رکن نہیں ہے اور نیٹو اس وقت تک کسی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا جب تک اس کے کسی رکن ملک پر حملہ نہ ہوا ہو لہٰذا سب یہ جانتے ہیں کہ یوکرائن اپنا دفاع روس کے سامنے نہیں کر سکتا لیکن حالات دیکھے جائیں تو امریکہ اور نیٹو اس جنگ میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔” رحمن بونیری نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس اور واشنگٹن میں یہ بات واضح ہے کہ یہ حملہ ہے اور وائٹ ہاؤس یوکرائن کی مدد جاری رکھے گا لیکن یہ مدد جنگی ہو گی یا نہیں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
اقتصادی پابندیاں روس کیلئے کتنی خطرناک ہیں؟
افغانستان میں بدترین شکست کے بعد جب روس واپس چلا گیا تو سوویت یونین خود کو سنبھال نہ سکی اور ایک جانب جہاں اس سے کئی ممالک آزاد ہوئے وہیں روس کی معاشی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہو گئی اور ایک وقت میں ایک ہزار روسی کرنسی صرف ایک امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ 9/11 کے بعد جہاں امریکہ افغان جنگ میں مصروف ہو گیا اور روس کو ولادی میر پیوٹن مل گیا تو روس نے اقتصادی طور پر خود کو سنبھالا اور آج روس ایک مستحکم معیشت ہے تاہم یہ معیشت مغربی ممالک کے ساتھ روابط پر کھڑی ہے۔ روس سالانہ 11 ارب ڈالرز کی گیس صرف یورپی ممالک کو فروخت کرتا ہے، امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں روس کیلئے زہر قاتل کی صورت اختیار کر سکتی ہیں کیونکہ روس کی معیشت مستحکم ضرور ہے تاہم یہ اتنی بھی مضبوط نہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک کا مقابلہ کر سکے۔
عمران خان کا دورہ روس کیا ثمرات لے کر آئے گا؟
وزیر اعظم عمران خان دو روزہ دورے پر روس کے شہر ماسکو میں موجود رہے، ان کے ہمراہ کابینہ کے 10 ارکان بھی تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس دورے کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پوتن سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم تین گھنٹے کی ملاقات کا صرف دوطرفہ امور تک محدود رہنے کا امکان کم ہی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
جامعہ پشاور میں شعبہ صحافت کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے اس وقت روس جانے کے بظاہر دو رخ ہیں؛ ایک تو وزیرا عظم کا دورہ صرف رسمی ہے اور روس کے ساتھ تیل و گیس کے معاہدے کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے دورہ کیا جبکہ دوسرا رخ یہی ہے کہ دنیا جہاں روس کو علیحدہ کر چکی ہے وہیں پاکستان روس کا ساتھ دینے کیلئے پہنچ گیا ہے، اس وقت ایک بلاک جس میں امریکہ اور یورپی یونین ہے وہ پاکستانی وزیر اعظم کے دورے پر خدشات رکھتے ہیں، دو ہاتھیوں کی لڑائی میں پاکستان کے وزیر اعظم کا دورہ کرنا چاہے وہ تیل و گیس کے معاہدے کیلئے ہی کیوں نہ ہو بالکل درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر عرفان اشرف کہتے ہیں کہ اس دورے کا مطلب ایسا ہے جیسے ہم بڑی بڑی طاقتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں، ماضی میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا اور روس کیخلاف گئے، افغان جنگ میں جو نقصان روس کو پہنچا ہے وہ اسے کبھی بھولیں گے نہیں، اب ہمیں ایسی کوئی غلطی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مشرقی بلاک کی حقیقت کیا ہے؟
امریکہ، برطانیہ ، نیٹو اور یورپ کے بلاک کے مقابلے میں کافی عرصہ سے ایک اور بلاک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم اب تک مشرقی ممالک کو اس بلاک کی تیاری میں کامیابی نہیں مل سکی تاہم اب ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ مشرقی بلاک بن گیا ہے جس میں پاکستان، روس اور چین انتہائی کلیدی کردار نبھا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیا جائے تو تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں روس، چین اور پاکستان کو نئے بلاک میں سمویا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے امریکہ میں جمہوری سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں روس اور چین کو مدعو نہیں کیا گیا اور اس کی وجوہات بھی امریکہ نے اپنی جانب سے بیان کر دی تھیں تاہم پاکستان نے خود اس سمٹ میں حصہ لینے سے منع کر دیا۔ اسی طرح امریکہ اور مغربی ممالک نے بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کر دیا تھا اور جواز پیش کیا گیا کہ چین میں اقلیتوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں تاہم وزیر اعظم عمران خان اس موقع پر بیجنگ چلے گئے۔ تیسرا اور انتہائی اہم وزیر اعظم عمران خان کا دوسرہ روس ہے۔
ماہرین کے مطابق روس نے یوکرائن پر حملہ کرنے کی تیاری کر لی تھی اور وائٹ ہاؤس نے بھی اس خدشہ کا اظہار کر دیا تھا کہ حملہ ہو گا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اسی موقع پر ماسکو کا دورہ کر لیا۔ ان تینوں اہم عوامل سے دنیا یہی سمجھ رہی ہے کہ پاکستان بار ہار کہہ رہا ہے کہ وہ کسی بلاک کا حصہ نہیں ہو گا لیکن عملی طور پر پاکستان ایک نئے بلاک کا حصہ بن چکا ہے اور یہ نیا بلاک مشرقی بلاک ہے جو امریکہ اور مغرب کی مخالفت میں بنایا گیا ہے۔