پیکا پر سول و صحافتی تنظیموں کی تنقید، حکومت کیا کہتی ہے؟
محمد فہیم
آن لائن جرائم یا پھر سائبر کرائمز کی اصطلاح نئی نہیں ہے تاہم اس حوالے سے بنائے گئے قانون کو ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا۔ 2016 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے سائبر کرائمز یا آن لائن جرائم کی روک تھام کیلئے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) منظور کیا اور اس وقت سے اس قانون پر بحث جاری ہے۔ اس قانون کو آزادی رائے سلب کرنے کے حوالے سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ ماضی میں جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اسی قانون کے تحت اس کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اس قانون میں چند ترامیم کرتے ہوئے انہیں فوری لاگو کرنے کیلئے صدر پاکستان سے اس کا آرڈیننس جاری کرا دیا جس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
ترامیم کے مطابق جعلی خبر دینے یا کسی بھی شخص کی کردار کشی پر سزا سال قید سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے جبکہ ججز کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ کیس کا فیصلہ ہر صورت 6 ماہ میں کریں گے، اگر جج 6 ماہ میں فیصلہ نہ کرسکے تو ہائی کورٹ کا جج متعلقہ جج سے جواب طلبی کر سکے گا اور ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکے گی۔ اسی طرح مقدمہ میں نامزد ملزم کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکے گا اور مقدمے میں اس کی ضمانت نہیں ہو سکے گی۔ ترامیم کے مطابق کسی بھی شخص کیخلاف درخواست دینے والا ضروری نہیں کہ متاثرہ فریق ہی ہو بلکہ کوئی بھی عام شہری کسی کی کردار کشی ہونے پر کسی کے خلاف شکایت درج کرا سکتا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق اس جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور جرم کو سول سے فوجداری بنا دیا گیا ہے۔
اس آرڈیننس پر سول تنظیموں اور صحافتی تنظیموں سمیت ہر مکتبہ فکر نے تنقید کی ہے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل نے اپنی ہی حکومت کی ترامیم کو ظالمانہ بھی قرار دے دیا ہے۔
حکومت کو اس حوالے سے اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی درخواست پر جاری حکم میں کہا ہے کہ آرڈیننس سے قبل یہ جرم قابل ضمانت تھا تاہم آرڈیننس کے ذریعے اسے نا صرف ناقابل ضمانت بنا دیا گیا ہے بلکہ اسے فوجداری قوانین کے زمرے میں داخل کیا گیا ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے ترمیمی آرڈیننس میں مسئلہ کیا ہے؟
آرڈیننس کو تمام حلقے آزادی رائے اور خصوصاً آن لائن صحافیوں کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ڈیجیٹل صحافی اظہار اللہ کے مطابق یہ قانون گرے ہے یعنی اس میں ابہام موجود ہے جو اسے کسی بھی جانب موڑ سکتا ہے جس کے باعث یہ انتہائی خطرناک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قانون میں کہیں پر بھی فیک نیوز یعنی جعلی خبروں کی تعریف نہیں کی گئی ہے، اس قانون میں تنقید اور جعلی خبر میں فرق نہیں رکھا گیا ہے، ”میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ حکومت کا احتساب کرے گا لیکن اگر اسی میڈیا نے ایک تنقیدی خبر شائع کی تو اس حوالے سے عام شہری اٹھ کر شکایت درج کرا سکتا ہے اور صحافی کو پھر مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
اظہار اللہ نے بتایا کہ جعلی خبروں کی روک تھام انتہائی ضروری ہے اور اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جانی چاہئے، سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی جعلی خبروں کی روک تھام کیلئے سرگرم ہیں لیکن اس آرڈیننس سے یہ لگ رہا ہے کہ آزادی رائے سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید حکومت کو معلوم نہیں کہ ان ترامیم سے کس حد تک آزادی رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے، حکومت کو چاہئے کہ ان فریقین یا سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ترامیم لائے جو (یہ طریقہ کار) انتہائی موثر بھی ہو گا۔
6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنا کس حد تک ممکن ہے؟
پیکا آرڈیننس کے تحت عدالت کو 6 ماہ کے اندر اندر ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ کرنا ہے تاہم اگر سائبر کرائمز کے حوالے سے ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنا کسی سہانے خواب سے کم نہیں ہے۔
سائبر کرائمز کے حوالے سے متعدد کیسز کی پیروی کرنے والی پشاور ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل کے مطابق اس وقت سائبر کرائمز کیلئے مقرر کورٹ میں صنفی تشدد، جنسی زیادتی اور دیگر کئی اہم کیسز بھی سماعت کیلئے مقرر ہوتے ہیں ایسے میں سائبر کرائمز کے کیسز بھی وہی عدالت دیکھتی ہے اور اب الیکٹرانک کرائمز کے کیسز بھی اس کے سپرد کرتے ہوئے اسے 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند بنانا حیران کن ہے، ‘ایک عدالت پر جتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے اس کے بعد اسے 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند کرنا عدالت پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔”
انہوں نے کہا کہ صرف جج کو ہی کیوں پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ 6 ماہ میں فیصلہ کرے؟ ایف آئی اے سمیت تمام تحقیقاتی اداروں کو بھی پابند بنایا جائے کہ وہ تحقیقات بروقت مکمل کریں، ”اگر یہ ادارے بروقت کام مکمل کریں گے تو عدالت بھی بروقت فیصلہ سنا دے گی تاہم ایسی ترمیم لانا کہ اگر جج نے 6 ماہ میں فیصلہ نہ کیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی یہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔”
کیا تحریک انصاف اس قانون کے ذریعے مخالفین کے منہ بند کرنا چاہتی ہے؟
پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کو سامنے لانے کے پیچھے حال ہی میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد خان، خاتون اول بشریٰ بی بی اور وفاقی وزیر مراد سعید پر کی جانے والی تنقید ہے تاہم تحریک انصاف اس سے اختلاف کرتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سول میڈیا ٹیم خیبر پختونخوا کے سربراہ یار محمد نیازی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والوں کی بات پر کوئی یقین نہیں رکھتا اور جھوٹے کو ہمارے معاشرے میں انتہائی حقیر سمجھا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر جھوٹ بولا جا رہا ہے، اس قانون کو صرف پی ٹی آئی سے منسلک کرنا درست نہیں ہے، یہ قانون سب کیلئے ہے اور اپوزیشن بھی اگر سمجھتی ہے کہ ان کیخلاف جھوٹ بولا جا رہا ہے تو وزیر اعظم خود بھی اس قانون میں جواب دہ ہیں، اپوزیشن شکایت درج کرائے۔
یار محمد نیازی نے بتایا کہ آن لائن پلیٹ فارم انتہائی اہم ہیں تاہم تحریک انصاف کو اس وقت جھوٹی خبروں اور پراپیگنڈوں کا سامنا ہے، ”حکومت کے بہتر کام کی تشہیر کیلئے سوشل میڈیا ٹیم دن رات کام کرتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس قدر حکومت مخالف جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ سوشل میڈیا کا نصف سے زائد وقت ان جھوٹی خبروں کی تردید اور حقیقت سامنے لانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے، یہ آرڈیننس کسی صورت کسی کو نشانہ بنانے کیلئے نہیں لایا گیا صرف اور صرف جھوٹ بولنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے اس قانون کو لاگو کیا گیا ہے۔”