نوشین فاطمہ
آج میں نے اپنی آئی ڈی کھولی تو سامنے پوسٹ پر نظر پڑی کہ سابقہ فاٹا کی ایک جرنلسٹ اور میری ایک بہادر بہن نے عملی طور پر سیاست میں قدم رکھ لیا ہے۔ باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کا حصہ بھی بن گئی ہے۔ میرے اندر ایک عجیب سا اطمینان بھر گیا جیسا کہ کوئی دیرینہ آرزو مکمل ہوگئی ہو۔
یاد آنے لگا کہ کیسے میں بینظیر بھٹو کو کاپی کرتی تھی اور اس کے انداز میں تقریر کرتی تھی تو گھر والے کہتے تھے توبہ کرو اب تم سیاست میں آوگی کیا میں اپنی بھابھی جنہوں نے قرآن مجید بھی مکمل نہیں پڑھا تھا ان کی ہنسی میں عجیب سا تمسخر دیکھتی تو لگتا کہ میں کوئی بہت غلط کام میں ملوث ہوں جیسے۔
میں تو ایسی ہوں کہ مجھے ہمیشہ سے ہی کسی بھی انسان یا جانور کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی اور تکلیف محسوس ہوتی تھی اور میرا دماغ اس کو ختم کرنے کے لیے راستے یا طریقے سوچنے لگتا اور مجھے ہمیشہ سے دوسروں کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کمال تھا لیکن میری بدنصیبی ہے کہ کوئی نہیں جان سکا کے مجھ میں اللہ تعالیٰ نے کونسے صفات دے کر پیدا کیا ہے۔
میرے گھر والے سیاست کو بہت بری نظر سے دیکھتے تھے کہ اسکا مطلب ہے منافقت کرنا میں بھی دماغ میں یہ سوچ لے کر بڑی ہوئی اور ہمارا لٹریچر بھی انسان کو یہی سکھاتا ہے کہ بس برداشت کرو اور بے بسی کا شاہکار بنے پھرو تو آپ کہانی اور زندگی کی ہیروئن ہوگی آپ کو لوگ تب ہی قبول کریں گے ورنہ آپ خراب عورت ہو۔
پھر 2014 میں جب میں نے سماجی دنیا میں قدم رکھا تو مجھ پر شعور کے دروازے کھلتے رہے۔ مجھے لگنے لگا کہ سیاست منافقت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے تو ہم دکھی انسانیت کی آواز بن سکتے ہیں، مجھے پتہ چلا کہ کیسے تہذیبی یافتہ قومیں سیاسی عمل میں نوجوانوں کو شامل کر کے انتہا پسندی سے بچتی ہیں۔
پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب میں ایک وقت میں مکمل طور پر سیاسی جماعت کا حصہ بن رہی تھی تو بھابھی نے ایک درخواست کی کہ تم نے نیٹ پر تصویر دے کر جتنا بے عزت کرنا تھا کر لیا مزید سیاست میں آکر ہماری عزت کا جنازہ نہ نکالو میں نے کچھ دلائل پیش کرنا چاہے تو سامنے سے جواب آیا یہی بے باکی تو سیاست میں آنے کے لیے ضروری ہوتی ہے جو پوری نسل کو برباد کر دیتی ہے۔
خیر امی کے حکم کی تعمیل کی اور پیچھے ہٹ گئی لیکن سفر ختم نہیں ہوا میں درپردہ اپنے آپ کو سیاسی لوگوں اور سیاسی عوامل سے دور نہ رکھ سکی اور اب اپنی والدہ کو بھی تقریباً قائل کر چکی ہوں اور اپنی اس دوست کے اس اعلان کے بعد اس سیاسی جماعت کی تلاش میں ہوں جو کہ خواتین کو بھی برابر کے حقوق دینے کے قابل ہو اور اہلیت رکھتی ہو ۔
ایسی جماعت کہ جس میں مجھے اپنا مقام بنانے کے لیے 2022 میں اپنی خوداری اور کردار کی قربانی نہ دینی پڑے جلد اس میں شمولیت کا اعلان کروں گی۔ پوسٹ پڑھ کر مسکرا کر کہا دیر اے درست اے بس ہمارے ذہن نے اتنا تو مان لیا کہ سیاست اور سیاسی عمل منافقت نہیں بلکہ تہذیب ترقی اور خوشحالی کا عمل ہے اور یہی جمہوریت کی جیت ہے اور ہماری بھی۔