ماخام خٹک
کہتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی (قبل مسیح ) کو تاریخ عالم میں بڑا اہم سمجھا جاتا ہےـ اس میں اصلاح مذہبِ زرخیزی کی ایک عالمگیر تحریک شروع ہوئی اور یہ دور تاریخ عالم کے چند نہایت حیرت ناک ادوار میں شمار ہوتا ہےـ کنفیوشس پانچ سو اکیاون قبل مسیح میں پیدا ہوئےـ ایک مورخ کے بقول ”دنیا میں جتنے بڑے بڑے مصلحین اخلاق گزرے ہیں ان میں صرف کنفیوشس ہی ایسا رہنما ہے جس نے نہ پیغمبری کا دعوی کیا، وہ صرف ایک معقول اور رحم دل انسان تھا اور محض اپنی روح کی تسکین کے لئے نیک خیالات اور نیک اعمال کا قائل تھا۔
وہ رقیق جذباتیت اور تجریدی مثالیت کا مخالف تھا اور اس بات پر زور دیتا تھا کہ انسان کو ہر معاملے میں عقل و دانش سے کام لینا چاہیےـ وہ ساری عمر معاشرے کی بہبود اور عوام کی بھلائی کی تجاویز سوچتا رہاـ اس نے اہل چین کو ایک قابل عمل دستورِ اخلاق بخشاـ اس کی تعلیم ہر قسم کے اوہام سے پاک تھیـ اس نے اخلاقی اور عمرانی فرائض کی ادائیگی پر زور دیا اور اقتصادی فلاح اور تعلیم و تعلم کی اہمیت واضح کی۔ وہ خود عالم تھا اور اہل علم کا مداح تھاـ اس نے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت تیار کی جنہیں مملکت کا نظم و نسق سونپ دیا گیاـ حکام اور عہدیداروں کا انتخاب مقابلے کے امتحان سے عمل میں آنے لگا۔ یہ روایت چینی میراث کا بیش قیمت حصہ ہے۔
کنفیوشس کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ ذہانت کی نشوونما کے ساتھ اعلی کردار کی تعمیر کی جائے پھر دونوں کو معاشرے میں بہتری کے لئے وقف کر دیا جائے ـ والٹیئر کنفیوشس کا پرجوش مداح تھا، وہ کہتا ہے: "میں نے پوری توجہ سے کنفیوشس کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے اقتباسات بھی لئے ہیں، ان میں پاکیزہ اخلاق کی تلقین کی گئی ہے اور ان میں مکروریا کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔” کنفیوشس آزادی رائے اور جمہوریت کا دلدادہ تھا۔ اس کی تعلیمات میں جبرواستبداد کی مخالفت کی گئی ہے۔ اس کی سوانح حیات سے ایک واقعہ بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔
ایک دن کنفیوشس اپنے چند شاگردوں کے ساتھ ایک کوہستانی علاقے میں سفر کر رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک عورت دیکھی جو ایک قبر سے لپٹی آنسو بہا رہی تھی۔ کنفیوشس نے اس کے غم و اندوہ کا سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس جگہ اس کے بیٹے کو ایک شیر نے جان سے مار دیا تھا۔ عورت نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ اس سے قبل اس کا خاوند اور باپ بھی اسی شیر کی خونخواری کا شکار ہو چکے تھے۔ کنفیوشس نے حیران ہو کر پوچھا: "تم نے ایسی خطرناک جگہ کو چھوڑ کیوں نہ دیا۔” عورت نے جواب دیا "کیونکہ یہاں کسی ظالم کی حکومت نہیں ہے۔” کنفیوشس اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا "دیکھو بچو! جابرانہ حکومت شیروں سے بھی زیادہ خوفناک ہوتی ہے۔”
اس تمام واقعے اور اتنی لمبی تمہیدی سطریں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آئے دن ریاست مدینہ کی رٹ لگانے والے سے اگر یہ پوچھا جائے کہ چودہ سو سال پہلے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے والے کا پیغام اور اخلاق ہمیں کیا درس دیتا ہے، وہ دینی لحاظ سے کس مقام پر اور دنیاوی لحاظ سے اخلاقیات کے کن مدارج پر تھے؟ ان کے اخلاقیات کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید خود گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ اخلاقیات کے عظیم مرتبے پر فائز تھےـ
حالیہ بلدیاتی انتخابات کے علاوہ ماضی قریب میں ملک کے اندر ضمنی الیکشن، پھر سینٹ انتخابات اور پھر سینٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی ووٹنگ کے دوران سوداگری اور منڈی لگانے کی جو ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے ـ بڑے بڑے آڑھتیوں اور پیسوں کے منبوں کو جس طرح نوازا گیا، بغیر دیکھے اور سمجھے جس طرح ان کو ٹکٹ دیئے گئے اور پھر ان کو جس طرح سے بظاہر آزاد امیدوار پاس کرایا گیا اور پھر جس طرح اپنائے گئے اخلاقیات خود بھی سر چھپائے اپنے باطن میں شرم کے مارے پانی پانی ہو گئے ہوں گے۔ الزامات دونوں جانب سے ایک طرح کے، نتیجہ دونوں جانب سے تقریباً ایک جیسا تو پھر کرنے والے کون؟ بینفیشری کون؟ اور یہ جو سیاسی، سماجی، اقتصادی اور اخلاقی گھٹن جو عوام میں پھیلائی یا مزید ہھیلائی جا رہی یے، اس کے ذمہ دار کون؟ اور یہ جو اس افراتفری کے عالم میں اشیائے ضروریہ کے نرخ آسمان تک پہنچے ہیں اس کا مداوا کون کرے گا؟ کیونکہ سیاست مداروں کو تو ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، دشنام ترازیوں اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے تاحال فرصت نہیں۔
نوٹ: مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہوا ضروری نہیں۔