لوکل گورنمنٹ انتخابات: میئر پشاور کون، کتنے لوگ حق رائے دہی استعمال کریں گے؟
انور زیب
خیبر پختونخوا میں رواں سال 19 دسمبر کو 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ہر ویلج کونسل اور نیبرہوڈ کونسل سے جنرل نشستوں پر تین کونسلر، ایک اقلیتی، ایک مزدرو کسان، ایک خاتون اور ایک یوتھ کونسلر کی نشست پر انتخابات ہوں گے۔
لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ کے مطابق ڈوِیژنل ہیڈکوارٹرز کی تحصیل کو سٹی لوکل گورنمنٹ کونسل کا نام دیا گیا ہے جس کا سربراہ میئر کہلایا جائے گا۔ اسی طرح ڈویژنل ہیڈکوارٹر کے علاوہ جتنی بھی تحصِیلیں ہیں ہر ایک سے منتخب ہونے والے تحصیل کونسلر کو چیئرمین کہا جائے گا۔ ان دونوں عہدوں کیلئے انتخابات بھی ڈائریکٹ (عام) ہوں گے۔
ادھر پشاور سمیت دیگر بڑے شہروں کی میئرشپ کیلئے سیاسی جماعتوں کی تگ و دو جاری ہے اور ہر جماعت کی کوشش ہے کہ میئرشب اس کو ملے۔
الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ”میئر پشاور سٹی” کے لیے 17 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ میئرشپ کے لیے 8 سیاسی جماعتوں اور 9 آزاد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
پیپلز پارٹی کے زرک خان، جماعت اسلامی کے بحراللہ ایڈوکیٹ اور جے یو آئی کے زبیر علی امیدوار ہیں جبکہ تحریک اصلاحات پاکستان نے شعیب خان، اے این پی نے شیر رحمان اور پاکستان راہ حق پارٹی نے محمد انور کو میدان میں اتارا ہے۔
اسکے علاوہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رضوان بنگش اور مسلم لیگ ن کے نیک زادہ نے بھی میئرشپ کیلئے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ آزاد امیدواروں میں محمد صدیق الرحمان، محمد ابراہیم، محمد طاہر شاہ، کفایت اللہ، عامر اقبال خلیل، ضیاء اللہ آفریدی، شمشیر خان اور آمین جان شامل ہیں۔
دوسری جانب پشاور کی میئرشپ پر کئی جماعتوں میں اندرونی اختلافات سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے میئرشپ کا ٹکٹ پہلے ضیاء اللہ افریدی کو دیا تھا تاہم بعد میں ان سے ٹکٹ واپس لے کر ارباب زرک کو دے دیا گیا۔ ارباب زرک پاکستان پیپلز پارٹی کی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عاصمہ عالمگیر کے فرزند ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق صوبائی قیادت نے بلاول بھٹو کی مداخلت پر میئر پشاور کا ٹکٹ ضیاء اللہ آفریدی سے لے کر ارباز زرک کو دیا ہے۔
اس حوالے سے ضیاء اللہ آفریدی کہتے ہیں کہ پارٹی قیادت نے اعتماد میں لئے بغیر ان سے ٹکٹ واپس لیا ہے اس لئے وہ آزاد حیثیت سے میئرشپ کا انتخاب لڑیں گے، ”پشاور شہر کی بہتری میرا خواب ہے۔”
ادھر پاکستان تحریک انصاف میں بھی میئر پشاور ہی نہیں بلکہ تحصیل چیئرمین شپ کی نشستوں کی تقسیم پر بھی اختلافات سامنے آئے ہیں۔ مثلاً تحصیل متھرا میں ٹکٹ ڈپٹی سپیکر محمود جان کے بھائی احتشام کو دینے پر پی ٹی آئی متھرا کی کابینہ مستعفی ہو گئی ہے۔ اسی طرح میئر پشاور کا ٹکٹ رضوان بنگش کو دینے پر بھی پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی ہے۔ پارٹی کے درینہ کارکنوں کے مطابق رضوان بنگش پسے کے بل بوتے پر آئے ہیں حالانکہ پارٹی کیلئے ان کی خدمات دیگر امیدواروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
میئر پشاور کیلئے اب بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان گٹھ جوڑ جاری ہے اور یہ ہو سکتا ہے کہ بعض سیاسی پارٹیاں اس نشست کیلئے ایکا کر لیں۔ تاہم حکمران جماعت نے کسی بھی پارٹی سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر محنت شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ میئر، چیئرمین اور دیگر نشستوں کیلئے امیدوار نامزد کئے گئے ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ عوام میں مقبول اور اچھے امیدوار نامزد کئے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ ناممکن تھی۔
واضح رہے کہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں 19 دسمبرکو 66 تحصیل کونسلوں اور 2382 نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کی نشستوں کے لیے پولنگ ہو گی، الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے مطابق جس میں ایک کروڑ 27 لاکھ 25 ہزار 800 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کی 7 تحصیل اور 357 نیبرہڈ و ویلج کونسلز کی نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 19 لاکھ 94 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، چارسدہ 10 لاکھ چھ ہزار جبکہ نوشہرہ میں کل ووٹرز 8 لاکھ 49 ہزار ہیں۔
اسی طرح ضلع خیبر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ 96 ہزار، مہمند میں 3 لاکھ 28 ہزار، مردان میں 14 لاکھ 38 ہزار، صوابی میں 10 لاکھ 60 ہزار، کوہاٹ میں چھ لاکھ 35 ہزار، کرک میں چار لاکھ 70 ہزار، ہنگو تین لاکھ 14 ہزار، بنوں چھ لاکھ 76 ہزار، لکی مروت چار لاکھ 94 ہزار، ڈی آئی خان 8 لاکھ 39 ہزار، ٹانک دو لاکھ 17 ہزار، ہری پور سات لاکھ 14 ہزار، بونیر پانچ لاکھ 18 ہزار جبکہ باجوڑ میں ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 23 ہزار ہے۔