باجوڑ میں اقلیتی برادری کی مشکلات کو دیکھ کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا: ثنا پرویز
زاہد جان
پشتون روایات رسم و رواج کے نام پر خواتین کو قلعہ بند یعنی گھروں تک محدود رکھنے جیسے سخت ترین قوانین کو توڑ کر قبائلی ضلع باجوڑ سے 241 خواتین نے پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر تاریخ رقم کردی ہے۔ان خواتین میں ایک ایسی خاتون بھی شامل ہے جس کا تعلق باجوڑ سے ہے اور اقلیتی برادری کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
ثنا پرویز کہتی ہیں کہ باجوڑ میں اقلیتی برادری کے مشکلات کو دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر اپنے کمیونٹی کو درپیش مشکلات کا خاتمہ کروں۔ باجوڑ میں الیکشن کے تناظر میں مجھے یہی خدشہ تھا کہ پہلی دفعہ یہاں پر خواتین سامنے آرہی ہیں تو پتہ نہیں کیا ہوگا لیکن سب سے پہلے تو میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے میرے والدین نے ہمت دی مجھے سپورٹ کرکے سامنے لائے مجھے ڈر تھا کہ پتہ نہیں لوگوں کا میرے بارے میں تاثرات کیا ہونگے لیکن باجوڑ میں عورتوں کو جو عزت دی جاتی ہے یہ مجھے اب پتہ چلا کیونکہ یہاں پر پشتون رواج اور روایات میں عورت کو ایک خاص مقام عزت کیساتھ دیکھا جاتا ہے اور یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہے میں الیکشن کمپین کیلئے جہاں بھی جاتی ہوں لوگ مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں اور بہت خوش ہوتے ہیں اور میری باتوں کو بہت اچھے طریقے سے سنتے ہیں۔
باجوڑ میں پہلی دفعہ یہ الیکشن کروائے جارہے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت ہی اچھا اقدام ہے کیونکہ یہاں خواتین کو سامنے آنے کا موقع مل رہا ہے۔ یہاں پر سب خواتین کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ملک کیلئے اپنے شہر کیلئے کچھ کرے اب یہاں پر سوچ بدل رہی ہے،لیکن بعض لوگ ایسے ہے کہ وہ بہت ہی چھوٹی ذہن رکھتے ہیں ایک طبقہ ایسا بھی یہاں ہے جو خواتین کو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رکھنا چاہتا ہے میں تو حیران ہوں کہ اس دور جدید میں پتہ نہیں وہ لوگ کس دور میں جی رہےہیں یعنی کہ خواتین کو انہوں نے اتنی آزادی نہیں دی ہے مثلآ عورتوں کی تعلیم پر انہوں نے وہ توجہ نہیں دی ہے مرد کو شہر سے باہر بھی تعلیم حاصل کرنے کیلے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرے لیکن خواتین کو وہ توجہ نہیں مل رہی۔
یہ لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ خواتین ہی کہ وجہ سے گھر چلتا ہے اگر آپ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی تعلیم سے آراستہ کرے تو ایک تعلیم یافتہ ماں سے ہی آپ کو تعلیم یافتہ بچے ملیں گے۔ میری پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ میں لڑکیوں کی تعلیم کیلے کچھ کروں اور میں بلا تفریق اقلیتی اور مسلم یعنی انسانیت کیلے کچھ کروں کیونکہ انسانیت سب سے بڑی چیز ہے میں جماعت اسلامی سے ہی کھڑی ہوں اور انکا منشور ہی ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام بے روزگاروں کو روزگار دو مجھے سب لوگوں کا سپورٹ حاصل ہے چاہے مسلم ہو یا نان مسلم ،اقلیتی برادری کو یہاں پر بہت مسائل ہے جیسا کہ جب ہمارا کوئی فوت ہوتا ہے تو یہاں پر قبرستان نہیں ہے ہم اپنے میت کو نوشہرہ دفنانے جاتے ہے،دوسرا ہم یہاں پر پیدا ہوئے ہے لیکن جب نوکریاں آتی ہے تو ہمارے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ آپکا ڈومیسائل یہاں کا نہیں ہے اور آپ نان لوکل ہے،جہاں تک عورتوں کی آذادی کا سوال ہے تو یہاں پر اب بھی اس طرح عورتوں کو آزادی حاصل نہیں جس طرح ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں بہت قابل ذہین خواتین ہیں لیکن بدقسمتی سے ان خواتین کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا،ان خواتین کو دبایا جاتا ہے ،یہاں کئی عورتیں بچیاں بہت ٹیلنٹیڈ ہے کوکنگ میں کشیدہ کاری میں لیکن اب بھی ان کو گھروں تک محدود رکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری کو حقوق نہیں مل رہے یہاں پر اقلیت کا 5فیصد کوٹہ ہے لیکن ہم ان سے محروم ہے،یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ ہماری سرکاری گھروں کا ہے ،ہم ایک ایک کوارٹر میں تین تین اور چار فیملی رہتے ہیں طالبان دور میں ہمیں پاک آرمی نے بہت سپورٹ کیا تھا لیکن ہم بے گھر ہوئے تھے اور پھر نوشہرہ میں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں تھا ہماری اقلیتی برادری کیساتھ کسی نے کوئی مدد نہیں کی ہے۔