سیاست

خیبرپختونخوا : آٹھ برس انتظار کے بعد گھریلو تشدد کا قانون بن تو گیا لیکن نافذ نہ ہوسکا

افتخار خان

خیبرپختونخوا میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں گیارہ مہینے پہلے 15جنوری 2021 کو بننے والا قانون ابھی تک نافذ نہ ہو سکا۔ قانون کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ اضلاع کی سطح پر بننے والی کمیٹیوں کا تشکیل نہ ہونا ہے۔

قانون کے تحت جسمانی تشدد کے علاوہ معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤ بھی خواتین پر تشدد کے زمرے میں آئیں گے اور تشدد پر15دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرانا لازمی ہوگا اور عدالت کیس کا فیصلہ 2ماہ میں سنانے کی پابند ہوگی۔

خیبرپختونخوا کے عورتوں پر گھریلو تشدد کی (حفاظت، روک تھام) کا قانون تقریبا آٹھ برس تک تعطل کا شکار رواں سال 15 جنوری 2021 کو صوبائی اسمبلی سے منظور ہوا تھا جس کے تحت صوبائی سطح پر ایک ہیلپ لائن کا قیام اور تمام اضلاع میں پروٹیکشن کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے لیکن ابھی تک ان کمیٹیوں کے رولز فائنل نہ ہوسکیں۔ ہیلپ لائن قانون سے پہلے ہی بولو ہیلپ لائن کے نام سے موجود ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد صوبائی حکومت نے رولز پشاور میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی این جی او بلیووینز کے حوالہ کئے تھے جنہوں نے کئی مہینوں کی میٹنگز اور مشاورت کے بعد مسودہ تیار کرکے محکمہ سماجی بہبود کے حوالہ کیا ہے۔ بلیو وینز کے مطابق پروٹیکشن کمیٹیوں کے قیام سمیت بعض دیگر پیچیدگیوں کے باعث اس قانون کا آئندہ چھ۔ سات مہینوں تک نفاذ ممکن نظر نہیں آ رہا۔

ان کمیٹیوں کا کام تشدد کے شکار خواتین کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے علاوہ ان کی قانونی معاونت کرنا اور ضرورت پڑنے پر ان کی پناہ گاہ تک رسائی یقینی بنانا ہوگا۔

پیچیدگیاں کیا ہیں؟

بلیو وینز کے کوآر ڈینیٹر قمر نسیم کا کہنا ہے کہ چونکہ رولز آف بزنس کے مسودہ پر ابھی محکمہ قانون، محکمہ فنانس، پی اینڈ ڈبلیو اور چند دیگر محکموں کے درمیاں مشاورت ابھی باقی ہے تو اس لئے قانون کے فوری نفاذ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

دوسرا مسئلہ ضلعی تحفظاتی کمیٹیوں کے قیام کے حوالے سے ہے۔ گھریلو تشدد کی روک تھام قانون کے مطابق اضلاع کی سطح پر بننے والی ہر پروٹیکشن کمیٹی ڈپٹی کمشنر، ضلع کے خاتون رکن صوبائی اسمبلی، محکمہ سوشل ویلفئیر کے اہلکار، پبلک پراسیکیوٹر، ڈی پی او کا نمائندہ، اسی ضلع سے تعلق رکھنے والی کسی بھی سرکاری محکمہ کی گریڈ سترہ یا اوپر کی خاتون افسر، ضلعی خطیب، گائناکالوجسٹ، سائیکالوجسٹ اور سول سوسائٹی کے دو ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سول سوسائٹی کے ارکان کا انتخاب کمیٹی کا چئیرپرسن ڈپٹی کمشنر دیگر اراکین کی مشاورت سے کریگا۔ کمیٹی کی سیکرٹری ڈسٹرکٹ کمیٹی آن دی سٹیٹس آف وویمن (وقار نسواں) ہوگی۔

چونکہ صوبہ بھر میں ابھی تک وقار نسواں کمیٹیوں کا قیام ہی عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے اس لئے فی الوقت ضلعی تحفظاتی کمیٹیوں کا قیام ممکن نہیں ہے۔ صوبہ بھر کے اضلاع میں وقار نسواں کمیٹیوں کا قیام خیبرپختونخوا اسٹیبلشمنٹ آف اے کمیشن آن دی سٹیٹس آف وویمن ایکٹ 2009 کے تحت اسی سال ہونا تھا۔ بعد میں یہ ایکٹ کے پی کمیشن آن دی سٹیٹس آف وویمن ایکٹ 2016 سے بدل دیا گیا لیکن اس کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا ہے۔

جب تک ضلعی وقار نسواں کمیٹیاں قائم نہیں ہوگی تب تک گھریلو تشدد کا قانون یونہی غیر فعال ہوگا کیونکہ ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیوں کے سیکرٹریز وقار نسواں کمیٹیوں سے ہی منتخب کی جائے گی۔

وقار نسواں کمیٹیوں ابھی تک کیوں قائم نہ ہوسکی؟

صوبہ بھر کے اضلاع میں ان کمیٹیوں کا قیام گیارہ سال پہلے ہونا تھا لیکن ابھی تک مختلف وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہیں ہوسکا ہے جن میں زیادہ تر وجوہات سیاسی ہیں۔

2016 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اضلاع کی سطح پر فوری طور پر ان کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی صرف اعلان ہی ثابت ہوا۔

گھریلو تشدد بل کی منظوری کے بعد موجودہ حکومت نے ایک بار پھر وقار نسواں کی ضلعی کمیٹیاں تشکیل دینے میں سنجیدگی دکھائی ہے لیکن ابھی تک فائنل نہیں ہوسکی ہے۔ زرایع کا کہنا ہے کہ ان کمیٹیوں کے لئے تمام اضلاع سے تقریبا ۲۷ خواتین کے نام سامنے آئے تھے لیکن کابینہ نے ان تمام ناموں کو مسترد کر دیا ہے۔

صوبائی وزیراطلاعات کامران بنگش نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ویمن کمیشن کے اضلاع کمیٹیوں سے متعلق کابینہ اجلاس میں نام زیر بحث آئے ہیں مگر کسی نام کی منظوری نہیں دی گئی۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ کابینہ ممبران نے ان تمام ناموں پر اعتراضات اٹھائے۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ میں فیصلہ کیا گیا کہ ان تمام تجویز کردہ ناموں کا ازسر نو جائزہ لینے کے بعد ہی منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔ انہوں امید ظاہر کی کہ اگلے کابینہ اجلاس میں بیشتر اضلاع کے کئے کمیٹی ممبران کی منظوری دی جائے گی۔

دوسری جانب زرایع کا کہنا ہے کہ کابینہ کے اراکین ان کمیٹیوں میں اپنی جان پہچان کے لوگ شامل کرنا چاہتے ہیں اور فی الحال اسی میں معاملہ اٹکا ہوا ہے۔

بولو ہیلپ لائن کا قیام

قانون کے تحت تشدد کے شکار خواتین کے لئے صوبائی سطح پر ایک ہیلپ لائن کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا جس پر وہ کال کرکے نہ صرف اپنی شکایت درج کراسکتی ہے بلکہ انہیں قانونی معاونت اور پناہ گاہ تک رسائی بھی اسی ہیلپ لائن کے زریعے مل سکتی ہے۔

صوبے میں بولو ہیلپ لائن کے نام سے یہ ہیلپ لائن 2016 سے ہی ایکٹیو ہے لیکن پہلے اس ہیلپ لائن کی رسائی صرف چھ اضلاع تک تھی لیکن اب تمام صوبوں تک اس کو وسعت دی گئی ہے۔

بولو ہیلپ لائن کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سحر خان کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن کے تحت خواتین کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اگر خطرہ ہو یا بے گھر ہو تو شیلٹر ہوم بھیجا جاتا ہے، ان کی کونسلنگ کرتے ہیں، ان کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس آنے والی زیادہ تر زیادہ تر کیسز جسمانی تشدد، جنسی تشدد وغیرہ کے آتے ہیں جن کو پولیس کے بھیجا جاتا ہے اور انہیں قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلپ لائن کا مختلف محکموں کے ساتھ شراکت ہے جن میں پولیس، محکمہ صحت، پناہ گاہیں، وکلا اور دوسرے شامل ہیں۔

خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لئے قانون سازی اتنی دیر سے کیوں؟

پاکستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں سب سے پہلے قانون سازی صوبہ سندھ میں 2013 میں ہوئی تھی جس کے بعد 2014 میں بلوچستان اور پھر 2016 میں پنجاب میں بھی اس حوالے سے قانون نافذ ہوا۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس حوالے سے سب سے پہلے قانون سازی کی کوشش 2012 میں کی گئی تھی لیکن تقریبا آٹھ سال کے وقفے کے بعد 2021 میں منظور ہو سکا۔

خیبرپختونخوا میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل سب سے پہلے عوام نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی متحدہ حکومت نے 2012 میں سامنے لائی تھی۔ اس کے بعد 2016 میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی متحدہ حکومت کے دوران اس قانون کے مسودہ دوبارہ تیار کرکے پیش کیا گیا لیکن جماعت اسلامی اس کی کھل کر مخالفت کی جس پر مسودہ کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا گیا جنہوں نے اس قانون کو غیراسلامی قرار دیکر مسترد کر دیا۔

2019 میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر اس بل کو اسمبلی میں پیش کر دیا جس پر مذہبی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے ایک بار پھر تحفظات ظاہر کر دئے جس کے بعد اراکین اسمبلی کے ایک کمیٹی کے زریعے یہ تحفظات دور کر کے جنوری 2021 میں یہ قانون اسمبلی سے منظور کیا گیا۔

قانون کے نفاذ میں تاخیر کے کیا نقصانات ہیں؟

نوشہرہ کے علاقہ نظام پور میں چند دن پہلے دیور کے تشدد سے حاملہ خاتون کے پیٹ میں آٹھ ماہ کا بچہ جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد متاثرہ خاندان نے پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم پولیس اہلکار ہے اس لئے ان کے خلاف کاروائی میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ بعد میں حزب اختلاف کے سیاسی قائدین کے متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے پر پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر دیا لیکن مقدمہ اس نئے قانون کے عدم نفاذ کی وجہ سے پاکستان پینل کوڈ کے 338 سی، 354، 506 اور 452  دفعات شامل کئے گئے ہیں جو کہ بالترتیب حاملہ خاتون پر حملہ آور ہونے، بے عزتی، دھمکی، چاردیواری کے تقدس کے خلاف دفعات ہیں۔

خیبرپختونخوا میں خواتین کے تحفظ کے لئے کوشاں تیمور کمال کا کہنا ہے کہ اگر گھریلو تشدد کا قانون نافذ ہوتا تو اس خاتون اور گھر والوں کو انصاف کے لئے احتجاج کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی اتنے دفعات لگائے جاتے بلکہ وہ خاتون سیدھی ضلعی تحفظ کمیٹی کے پاس اپنی شکایت لیکر جاتی جبکہ اس کے بعد ان کو علاج کی فراہمی اور قانون تک رسائی اس کمیٹی کا کام ہوتا۔

تیمور کمال کہتے ہیں کہ فی الوقت صوبے میں گھریلو تشدد کے تمام واقعات میں پی پی سی کے مختلف دفعات لگائے جاتے ہیں جن میں ایک بھی خواتین پر تشدد کے حوالے سے مخصوص نہیں ہے۔

2020 خواتین کے لئے ڈراونا سال

2020 ویسے تو کورونا وبا کی وجہ سے تمام دنیا کے لئے ڈراونا سال رہا لیکن خیبرپختونخوا کے خواتین کے لئے یہ تشدد کے لحاظ سے اور بھی خوفناک ثابت ہوا اور ان پر تشدد کے کیسز میں 45 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے عورت فاونڈیشن کے ایک سروے کے مطابق 2020 میں خیبرپختونخوا میں 2297 خواتین تشدد کا نشانہ بنی جن میں 624 قتل کے بھی واقعات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد کے اضافے کی بڑی وجہ کورونا وبا کے دوران لاک ڈاون کا لگنا تھا جس میں زیادہ تر مرد گھروں پر بیٹھ گئے اور ان کو معاشی تنگی نے آ گیرا اور انہوں نے پہلے سے مظلوم طبقے خواتین اور بچوں پر تشدد شروع کیا۔

مردان کے علاقہ مصری آباد سے تعلق رکھنے والے تین بچوں کی ماں رضیہ خان (نام تبدیل کیا گیا ہے) پرائیوٹ سکول کے استاد کی بیوی ہے اور ان خواتین میں شامل ہیں جن پر لاک ڈاون کے دوران شوہر کا تشدد روٹین بن گیا تھا۔ کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالیہ خان کے شوہر کی نوکری چلی گئی تھی جس کے اثرات ان کی زندگی پر پڑے اور وہ ان کی خوشیوں بھری زندگی گھریلو لڑائی جھگڑے کی نذر ہو گئی۔

"نوکری جانے کی وجہ سے میرے شوہر کافی پریشانی میں مبتلا ہوئے اور اس کے اثرات مجھ پر ذہنی اور جسمانی تشدد کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوئے جس کے باعث میری زندگی عذاب بن گئی” ٹی این این سے بات کرتے ہوئے عالیہ نے بتایا اور مزید کہا کہ اس دوران میں کئی بار روٹھ کر میکے بھی چلی گئی تھی۔”

لاک ڈاون کے خاتمے کے ساتھ رضیہ جیسی خواتین کی زندگی ایک بار پھر نارمل حالات پر آگئی ہیں لیکن دوسری جانب مردان ہی کی نسرین جیسی بھی درجنوں خواتین ہیں جن کی زندگی اب بھی اجیرن ہیں۔

نسرین پر بھی لاک ڈاون کے دوران جب خاوند اور دیگر سسرال والوں کا تشدد بڑھ گیا تو وہ میکے آکر بیٹھ گئی جو کہ ان کے سسرال والوں کو ایک آنکھ نہ بھای اور ان کو طلاق بجھوا دیا۔

خواتین کے حقوق کی علمبردار خورشید بانو بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے خواتین پر تشدد میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تعداد حقیقت میں رونما ہونے والے واقعات کا ایک فیصد بھی نہیں ہے کیوںکہ زیادہ تر خواتین خوف، روایات اور غیرت کی وجہ سے ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتی۔

خورشید بانو نے مزید بتایا کہ آج کل سوشل میڈیا کی بدولت پھر بھی کچھ کیسز سامنے آتے ہیں جبکہ چند سال پہلے تک تو ایسے کیسز نہ ہونے کے برابر تھے۔

بولو ہیلپ لائن کی ڈائریکٹر سحر خان نے بھی 2020 میں خواتین کے کیسز میں اضافے کی تائید کی اور کہا کہ مارچ سے دسمبر تک چھ سو سے زائد خواتین نے ہیلپ لائن کی معاونت حاصل کی تھی۔

2021 میں کیسز میں نمایاں کمی

خیبرپختونخوا کا محکمہ سوشل ویلفئیر، عورت فاونڈیشن یا دیگر اداروں کی جانب سے اس سال خواتین پرتشدد کے واقعات کا ڈیٹا سامنے نہیں آیا ہے لیکن بولو ہیلپ لائن کی ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ان کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے۔

سحر خان کہتی ہے کہ رواں سال اب تک ان کے پاس 350 خواتین نے معاونت کے لئے کال کیا ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت بہت کم ہیں اور اس کی بڑی وجہ یقینا لاک ڈاون کا خاتمہ ہے۔

خورشید بانو رواں سال خواتین پر تشدد کے کیسز میں کمی کو خوش آئند قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ قانون کے اصل معنوں میں نفاذ سے ان کیسز میں مزید کمی کی بھی توقع ہے بشرط یہ کہ اس کے حوالے سے خواتین کو اچھے طریقے سے آگاہ کیا جا سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button