لائف سٹائل

سائبر جرائم کی روک تھام کیلئے اچانک نئے ادارے کا قیام کیسے؟

 

رفاقت اللہ رزڑوال
وفاقی حکومت نے سائبر جرائم کی تحقیقات اور روک تھام کیلئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے تحت سائبر کرائم انوسٹی گیشن ونگ کے اختیارات کو ختم کرکے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تاہم سوشل میڈیا کے حقوق پر کام کرنے والے ماہرین اور صحافی حکومت کے اس اقدام کو آزادی صحافت پر پابندی سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوانین اور ادارے ایسے بننے چاہئے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہو۔

محکمہ اطلاعات و ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ اب وفاقی تحقیقاتی ادارے کی سائبر کرائم ونگ سائبر جرائم کی تحقیقات نہیں کرے گا بلکہ وفاقی وزارت داخلہ کے تحت نئے بننے والا ادارہ نیشنل کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کرے گا۔

اعلامئے میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ نئی ایجنسی کا سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل ہوگا جن کے پاس صوبائی پولیس کے سربراہ یا انسپکٹر جنرل جتنے اختیارات ہونگے۔
دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مخصوص ادارے کے قیام سے عوام کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ یقینی ہوگا جبکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں، افواہوں اور پروپیگنڈوں کی روک تھام ممکن ہوگی۔

تاہم ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہرین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ نئے ادارے یا قوانین کے قیام میں ماہرین کی رائے شامل ہونا ضروری ہے تاکہ قوانین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روک سکیں۔
پشاور میں مقیم صحافی لحاظ علی نے ٹی این این کو بتایا کہ قوانین اور ادارے مستقل چیز نہیں ہوتے بلکہ یہ عوام کیلئے بنتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام ماہرین کو شامل کیا جائے جس سے وہ متاثر ہو رہے ہو۔
لحاظ علی نے بتایا ” سائبر جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے ایف آئی اے کی کارکردگی خراب ہے اور ماضی اور حال دونوں میں اکثر اُسی کے ذریعے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر نئے بننے والے ادارے سے یہی توقع ہے کہ وہ قوانین کو بغیر کسی تفریق اور اس کی روح کے مطابق عملی کریں گے”۔

لحاظ علی کہتے ہیں کہ صحافیوں کی خواہش ہے کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جائے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ قوانین اور اداروں کی قیام میں صحافیوں کا ان پٹ شامل ہو لیکن اب ہم بے خبر ہے کہ اس ادارے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈٰیا پر جھوٹی خبروں، گالم گلوچ اور بازاری زبان استعمال کرنے کی روک تھام تب ممکن ہوگی جب پاکستان میں ہتک عزت کا قانون اور ادارے مضبوط بنائے جائے اور پھر وہی ادارے ان قوانین پر بغیر کسی سیاسی اختلاف کے من و عن عمل کریں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی ایسی حال میں بنائی گئی ہے جہاں پر پاکستان میں آزادی صحافت کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں چار صحافیوں کے قتل اور 77 افراد کے خلاف 104 مقدمات کا ذکر کیا تھا۔

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے مذکورہ ادارے کے قیام پر حیرانگی کا اظہار کرتے سوال اُٹھایا ہے کہ اچانک ایک ایسے ادارے کا قیام جس میں ماہرین کی رائے شامل نہ ہو کیسے کام کرے گا؟
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرنے والی سیرت خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ڈی آر ایف گزشتہ 7 سالوں سے ایف آئی اے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ان سات سالوں میں ان کی ہیلپ لائن کے ذریعے 17000 تک سائبر جرائم کے شکایات موصول ہوئی ہیں جسے ہم ایف آئی اے کو بھیج دیتے۔ اب ان سیکورٹی اداروں اور سائلین کے تمام مشکلات اور تکنیکی مسائل کے بارے میں انہیں علم ہے۔

سیرت کا کہنا ہے "اچانک ادارے کی قیام سے حیرانگی ہو رہی ہے، ہم بھی جانا چاہ رہے ہیں کہ یہ ادارہ کس طرح کام کرے گا، کون کون اس میں شامل ہونگے، تحیققات کا طریقہ کار کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ مگر یہ وقت بتائے گا”۔
سیرت نے آگے بتایا کہ پراسرار طریقے سے کسی ادارے کا قیام اور صرف ایک پریس ریلیز سے عوام کو خبردار کرنا سوشل میڈیا کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اداروں کے قیام اور اس کے ایس او پیز تمام سٹیک ہولڈرز کے مشاورت سے طے ہو تاکہ کل کوئی فریق اس کی کریڈیبلٹی پر سوال نہ اُٹھائیں۔

گلوبل ڈیجیٹل انسائٹ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 111 ملین انٹرنیٹ صارفین میں 71 اعشاریہ 7 ملین صارفین سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں 44 اعشاریہ 5 ملین فیسبک جبکہ 4 اعشاریہ 5 ملین ایکس صارفین کی تعداد ہیں مگر پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے ایکس پر پابندی لگائی گئی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button