زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے، افغان خواجہ سراء
مصباح الدین اتمانی
پشاور ہائیکورٹ کے بار روم میں وکلاء کے درمیان بیٹھی افغان خواجہ سرا حورین نے ٹی این این کو بتایا کہ یہاں افغان مہاجرین کو بھی مشکلات درپیش ہے، کارڈ یا پی او آر کارڈ نہ ہونے پر ان کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں افغان خواجہ سراوں کے مسائل اور مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہے۔
حورین کے مطابق وہ اگر کسی شادی کی تقریب میں جاتی ہیں تو پولیس کے ساتھ ساتھ عام عوام بھی انہیں تنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریبات میں جانا ان کی امدن کا واحد ذریعہ ہے لہذا انکو بے جا تنگ نہ کیا جائے اور انکو زبردستی واپس افغانستان نہ بھیجا جائے کیونکہ افغانستان میں خواجہ سراوں کی زندگی ناممکن ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہاں انکو پناہ دیں اور انکو تحفظ دیں۔
دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ میں افغان موسیقاروں اور خواجہ سراؤں کی پاکستان سے زبردستی انخلاء کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران جسٹس سید ارشد علی نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا یہ درخواستیں افغان شہریوں کی یہاں رہائش کے لئے ہیں؟ جس پر وکیل درخواست گزار ممتاز احمد ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ نہیں یہ صرف افغان موسیقاروں اور خواجہ سراؤں کے انخلاء سے متعلق ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی ایسا ہی ایک درخواست زیر سماعت ہے۔ آپ یہ درخواست واپس لیں اور سپریم کورٹ میں فریق بن جائے جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت ملتوی کر دی۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کمیونٹی کی سربراہ فرزانہ ریاض نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے آنے والے افغان خواجہ سراوں کو بھی واپس بھیج رہے ہیں جس کے خلاف ہم نے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی لیکن ہمیں سپریم کورٹ جانے کا کہا گیا۔ فرزانہ ریاض کے مطابق اگر ان کو واپس بھیجا گیا تو وہ لوگ ان کو مار دیں گے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کو پناہ دی جائے اور ان کو واپس نہ بھیجا جائے۔
ٹرانس رائٹس ایکٹیوسٹ ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے بتایا
افغانستان کے خواجہ سراوں کو پاکستان میں دو قسم کے مسائل کا سامنا ہے، پہلی تو یہ کہ باقی خواجہ سراوں کی طرح وہ بھی پاکستان میں صنفی تشدد سے دوچار ہے، دوسری طرف وہ یہاں کے شہری نہیں ہے، ریاست جو حقوق اپنی شہریوں کو دیتے ہیں وہ پاکستان میں اس حق سے محروم ہے، یعنی وہ ایک مشکل سے ابھی نکلے نہیں تھے کہ انہیں دوسری مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں ان کو بے دخل کرنا ان کی سر پر جو تھوڑی بہت سکیورٹی کی چادر ہے وہ بھی چھیننے کی مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر ان افغان خواجہ سراوں کو بے دخل کریں گا تو یہ ان کی جان کو خطرے میں ڈالیں گے، پاکستان کم از کم افغان خواجہ سراوں کو تحفظ دینے کے لیے قانون ساز اداروں کے زریعے ایسی قانون سازی کریں کہ ان کو یہاں پناہ دی جا سکے۔