خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرین نفسیاتی مسائل سے دوچار
رفاقت اللہ رزڑوال
"حالیہ سیلاب نے میرے اور میرے خاندان کی سماجی زندگی کا نقشہ بدل دیا، جس رات سیلاب آ رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے کو دریا کی سطح جانچنے کیلئے دریا کے کنارے کھڑا کر دیا تھا جیسے ہی گھر کے دیگر افراد سامان اُٹھا کر چھتوں پر لے جارہے تھے تو اسی اثنا میری گھر کی دیواریں اور پھر پوری گھر میرے نظروں کے سامنے گرنا شروع ہوئے”۔
یہ چارسدہ کے مقام پر دریائے سوات کے قریب رہایشی حالیہ سیلاب سے متاثرہ 80 سالہ شخص اول خان کی کہانی ہے جس نے 16 اپریل کے سیلاب میں اپنا گھر کھو دیا ہے۔ اول خان پیشے کے لحاظ سے کاشتکار ہے اور اپنے زمینوں سے اپنی خاندان کی زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں مگر اس وقت وہ اپنے کھنڈر گھر کے گرے ہوئے دیواروں پر بیٹھے ہوئے سوچ رہا ہے کہ گھر کو تعمیر کیسے کریں گے۔
اول خان کے گھر کی زمین سیلاب کے ایک ہفتہ بعد بھی پانی کی زد میں ہے جس نے گھر کا پردہ رکھنے کیلئے چادریں باندھے ہیں۔ وہ آبدیدہ ہو کر سوال اُٹھاتے ہیں "قدرت ہمیں کس گناہ کی سزا دے رہی ہے، میں دس دفعہ سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوا ہوں مگر اس بار میرے پکے ہوئے گندم اور گنے کی فصل بھی بہہ گئی جس سے میرا مالی نقصان ہوا، اب مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کس طرح اپنا گھر تعمیر کروں گا”؟
"گھر تباہ ہونا میرے لئے مسئلہ نہیں لیکن کم از کم اگر فصل بچ جاتی تو اس سے حاصل ہونے والی رقم سے گھر تعمیر کرتا مگر فصل سے آمدن کی امید بھی دم توڑ گئی”۔
خیبرپختونخوا کا ضلع چارسدہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر شابڑہ کے مقام کے مقام پر تین دریا (کابل، جیندے اور سوات) ملتے ہیں جس کے ارد گرد مقامی آبادیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
اسی طرح کی کہانی بھی ڈاگی مکرم میں دریائے سوات کے قریب رہنے والے نور الامین کا گھر بھی ہے جس کا گھر دریا برد ہوچکا ہے، ان کے چھ بچے اب خیمے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
نورالامین کا گھر دریا برد ہونے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس کے ارد گرد درجنوں لوگ گھر گرنے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
نوالامین کہتے ہیں کہ ان کا گھر اگست 2022 میں بھی تباہ ہوچکا تھا مگر حکومتی امداد سے دوبارہ اُسی جگہ پر تعمیر کیا مگر اس سیلاب نے نہ صرف ان کی گھر کی عمارت گرادی بلکہ اس کی زمین بھی بہا کر لے گئی ہے۔
"مجھے اس وقت افسوس ہورہا ہے کیونکہ میری کمسن بیٹیاں مجھ سے اپنی گھر منتقل ہونے کے بارے میں پوچھ رہی ہیں مگر انہیں کیا پتہ کہ ان کا گھر اب اس زمین پر موجود ہی نہیں”۔
اس سے ملتی جُلتی ایسی کہانیاں سینکڑوں خاندانوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی املاک اور فصلات کے نقصانات دیکھے ہیں بلکہ جانی نقصانات میں اپنے پیاروں کو بھی کھو چکے ہیں۔
پی ڈی ایم نے 20 اپریل کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حالیہ بارشوں کے باعث صوبہ بھر کے 31 اضلاع میں مرد و خواتین سمیت 63 بچے جانبحق جبکہ 78 افراد زخمی ہوچکے ہیں تاہم 355 جانور ہلاک، 3302 گھر اور 27 سکولوں کو نقصان پہچ چکا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب میں جانبحق افراد کے لواحقین کی امداد کیلئے 110 ملین روپے جبکہ قبائلی اضلاع میں امدادی سرگرمیوں کیلئے 90 ملین روپے فنڈ جاری کر دیا گیا ہے۔
سیلاب متاثرین کے نفسیاتی مسائل؟
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین اور بچے زیادہ حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں جو قدرتی آفات کے اثرات سے اثر لیتے ہیں۔
پشاور میں نفسیاتی علاج کے نجی ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں جن کو صحت، پردے اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میاں افتخار کے مطابق اکثر خواتین اپنے مردوں کو اپنے پوشیدہ مسائل بیان نہیں کرسکتے جس سے وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہو رہے ہیں جبکہ مردوں کی معاشی حالات ہونے سے ان کے نفسیات متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا مردوں کے نفسیاتی مسائل سے چڑچڑا پن، سر درد، گھبراہٹ اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے جس سے وہ لڑنے جھگڑنے پر اتر آتا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کو تمام تر سہولیات کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔
میاں افتخار حیسن کہتے ہیں کہ ایسے متاثرین کیلئے حکومتی سطح پر نفسیاتی ماہرین کی خدمات لینا نہایت ضروری ہے کیونکہ عام انسانوں کو اس کی اہمیت سمجھ نہیں آ رہی ہے مگر ان مسائل کا سامنا کرنے والے افراد ذاتی اور سماجی زندگی میں مشکل سے گز رہے ہیں۔
سیلاب آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایشیائی ممالک سب سے زیادہ خطرات اور تباہی کے شکار ہوئے جہاں سیلاب اور طوفان نے سب سے ہلاکتیں اور معاشی نقصانات کئے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کہتے ہیں کہ پاکستان کو 2002 سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے جس کا مطلب درجہ حرارت میں اضافہ ہے، درجہ حرارت میں اضافے سے گرمی اور سردی کے شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر نفیس نے بتایا کہ ان کے تحقیق کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران گرمی کا موسم آٹھ ماہ تک پہنچ چکا ہے اور جب گرمی بڑھے گی تو خشک سالی پیدا ہوگی۔ خشک سالی سے نہ صرف خوراک کی کمی واقع ہوگی بلکہ گلیشئرز کی تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں بڑی تیزی سے واقع ہو رہی ہے اور اس کا پاکستان جیسے ممالک پر سب سے زیادہ ہے کیونکہ پاکستان ان مسائل سے نمٹنے کیلئے نہ حکومتی اور نہ عوامی سطح پر تیار ہے۔
"سیلاب کے خطرات مزید بڑھیں گے کیونکہ رپورٹس کے مطابق ماضی کی نسبت اس میں 30 فیصد تک اضافہ ہوگا اور اسکے ساتھ سیلاب کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا”۔
عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والی کلائمیٹ ایکشن کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے پچھلے 200 سو سالوں میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے زمہ دار انسانوں کو قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1800 کے دہائی کے آخر میں (صنعتی انقلاب سے پہلے) 1۔1 ڈگری سنٹی گریڈ اضافہ ہوا جو ایک لاکھ سال پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
ماحولیات کے متعلق موضوعات پر کام کرنے والے صحافی محمد داؤد خان کہتے ہیں کہ دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد عوام خوش ہو کر سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے ترقی کرلی مگر انہوں نے دنیا کے ماحول کو بھی نقصان پہنچایا اور نقصان یہ ہے کہ صنعت سے خارج ہونے والے گیسوں نے دنیا کی درجہ حرارت بڑھانے میں کردار ادا کیا جسے کلائمیٹ چینج کا نام دیا گیا۔
محمد داؤد کہتے ہیں کہ درجہ حرارت کی وجہ سے وہ ممالک یا خیبرپختونخوا جیسے صوبے اسلئے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کا اس درجہ حرارت پر قابو پانے کیلئے تیاریاں نہیں ہوتیں لیکن اس کے برعکس جن ممالک میں سیلاب کی نقصانات کم رپورٹ ہوتے ہیں وہاں پر مختلف قسم کے سائنسی طریقوں کا اطلاق اور قوانین کا نفاذ یقینی ہوتا ہے۔
"ترقی یافتہ ممالک نے موسمی تغیرات کے ساتھ خود کو تبدیل کیا ہے، اپنی رہن سہن، طور طریقے، حتی کہ انہوں نے اپنی معیار زندگی تبدیل کیا ہے مگر ہم نے نہیں کیا ہے۔ تو اس کیلئے ہمیں اپنے ترجیحات، تن آسان زندگی اور ماحول دشمن روئے ترک کرنے ہونگے”۔
اب سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ چارسدہ اور نوشہرہ کیوں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں تو داؤد خان کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اضلاع تین دریاؤں (سوات، کابل، جیندے) کی زد میں ہیں جن کے پانی کا منبع بالائی علاقوں سے ہو کر آتا ہے۔ جب بالائی علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ضلع چارسدہ کے مقام پر تینوں دریا اکٹھے ہوکر نوشہرہ کی طرف جاتے ہیں اور ان علاقوں کا محل وقوع میدانی علاقوں پر محیط ہے حکومت کی عدم تیاری کی وجہ سے پانی پھیلتی ہے اور لوگوں کے املاک اور فصلات کو متاثر کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کہتے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے ایک حساس ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں پر عالمی معیار کے مطابق جنگلات کا رقبہ 25 فیصد ہونے کی بجائے صرف 5 فیصد ہے۔ اسی طرح پانی کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت 30 سے 40 فیصد تک ہونی چاہئے جبکہ ہماری صلاحیت صرف 13 فیصد تک ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر پانی کی کمی پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم صحافی محمد داؤد خان کہتے ہیں کہ اگر حکومت دریاؤں کے کنارے سائڈ والز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دریاؤں کی گہرائی پر توجہ دیں اور ساتھ میں عوام کو اس کا پابند بنایا جائے کہ دریاؤں کے کنارے رہائش اختیار نہیں کرینگے تو مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
” مگر مسئلہ یہ ہے کہ نہ صرف ایک طرف حکومت دریاؤں کی کنارے سائڈ والز کی تعمیر کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں بلکہ عوام بھی دریاؤں کے کنارے سستی زمینیں خرید کر رہائش اختیار کرتے ہیں جس پر سستی مٹیریلز سے تعمیرات کرکے خود کو سیلاب کے سامنے لا کھڑا کر دیتے ہیں”۔
محمد داؤد خان کی رائے کے مطابق سائنسدانانوں کا ماننا ہے کہ دن بدن درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس پر قابو پانے کیلئے طریقے موجود ہیں جس میں پٹرولیم کارز کی استعمال کی بجائے الیکٹرک کارز کا استعمال، کوئلے سے بجلی بننے کی بجائے پانی سے بجلی بنانا، جنگلات کی کٹائی اور پانی کے ضیاع سے پرہیز کرنا شامل ہے۔