پشاور کا ایک ایسا بازار جہاں کی خریدار صرف خواتین ہیں
رانی عندلیب
پشاور میں وزیر باغ اور کوہاٹ روڈ کے بیچ میں ایک چھوٹا سا مقامی بازار ہے جہاں پر دکاندار صرف مرد اور خریداری کرنے والی صرف اور صرف خواتین ہیں۔ آج کل اسے خواتین کا بازار بھی کہا جاتا ہے یہاں پر ضرورت کی وہ تمام اشیاء موجود ہیں جسے خواتین خریدنا چاہتی ہیں۔
خواتین بغیر شاپنگ کی ادھوری ہیں اور ان کے مرد ان کو بڑے بازاروں میں جانے نہیں دیتے تھے اس لیے وہ اپنی ضرورت کی چھوٹی موٹی اشیاء اسی بازار سے خرید کر پورا کرتی تھی۔ اس بازار میں شروع میں چند دکانیں تھی جس میں ضرورت زندگی کی تمام چیزیں موجود تھی۔ پھر رفتہ رفتہ خریداری کرنے والے لوگ اتنے زیادہ ہو گئے کہ لوگوں نے اپنے گھروں کی عمارتوں میں مارکیٹیں بنائی اور اس کے اوپر اپنے گھر بنائے۔ کیونکہ اب اس بازار سے نہ صرف علاقے کہ لوگ خریداری کرتے ہیں بلکہ دور دراز علاقوں سے بھی لوگ یہاں خریداری کرنے اتے ہیں۔ یہاں پر سبزی، پھل، قصائی، کپڑوں ، سنیار، دوپٹہ رنگنے والی دکانیں، غرض ہر قسم کی دکانیں موجود ہیں۔
اب جب کہ عید قریب انے والی ہے تو یہاں پر خواتین کا رش انتہائی زیادہ ہے۔ یہ رش نہ صرف دن کے وقت ہوتا ہے بلکہ رات کو تقریبا ایک بجے تک ہوتا ہے۔ چاند رات پر صبح تک یہ تمام باراز کھلا ہوتا ہے۔ یہاں پر خواتین سے بات چیت کر کے معلوم ہوا کہ شہر کے جو بڑے بڑے بازار ہیں وہ رات کے وقت 10، 11 بجے تک بند ہو جاتے ہیں، دوسرا وہاں پر دہشت گردی کے ساتھ ہراسمنٹ کا بھی خطرہ ہوتا ہے جبکہ یہ ایک ایسا بازار ہے جہاں پر صرف اور صرف خواتین خریداری کرتی ہیں نہ بم دھماکوں کا خطرہ ہوتا ہے نہ ہی خواتین کو ہراساں کرنے کا۔
اس بازار کے حوالے سے ایک خاتون جس کا نام امینہ بی بی ہے کا کہنا ہے کہ وہ رشید گڑھی کے چوک بازار میں رہتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہاں اس بازار کا یہ فائدہ بھی ہے، کہ اس کا شوہر صبح سویرے کام پر چلا جاتا ہے اور اس کی تین بچے بھی سکول چلے جاتے ہیں۔ لیکن اسے کوئی فکر نہیں ہوتی کیوں کہ وہ گھر کا کام ختم کر کے گھر سے نیچے ا کر ضرورت کا سارا ساز و سامان لے جاتی ہے چاہے وہ گوشت ہو سبزی ہو یا ضرورت کا کوئی اور سامان۔ آمینہ کا کہنا ہے کہ اگر تازہ سبزی نہ ہو تو وہ سبزی والے سے کہتی ہے کہ” بھائی تازہ سبزی آجائے تو میرے گھر میں دے دینا”۔ اس کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں کے جتنے بھی دکاندار ہیں اور ریڑھی والے ہیں سب کے سب انتہائی اچھے ہیں۔ اگر کسی خاتون کو شاپنگ کے دوران پیسے کم پڑ جائے یا ختم ہو جائے تو دکاندار اسے ادھار دے دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ دکاندار اپنی گاہک سے کہتا ہے اگر خریدی ہوئی چیز پسند نہ ائے یا کوالٹی کا نہ ہو تو استعمال کر کے واپس لے اؤ۔ یہ اس بازار کے دکانداروں کی خصوصیات ہیں۔ وہ گھر کا دروازہ کھٹکٹھا کر سبزی دے جاتے ہیں یا کوئی ضرورت کا اور سامان ہوں تب بھی وہ دے دیتے ہیں۔
کاسمیٹکس کے دکاندار کا کہنا ہے کہ چوک بازار میں تقریبا 22 سال سے کاسمیٹکس کی دکان چلا رہا ہے اور اب اس کا بیٹا اس دکان پر بیٹھتا ہے۔ ماجر ماما کے نام شے مشہور دوکاندار کا کہنا کہ جب سے وہ دبئی سے ایا تو گھر میں سب لوگوں نے اس کو یہ کہا کہ یہاں پر سب بے روزگار ہیں۔ اب تم کون سا کام کرو گے اور گھر کا خرچہ کیسے چلے گا۔ لیکن ماجر ماما کا کہنا ہے کہ دبئی سے وہ زیادہ اس دکان میں کماتا ہے اور چوک بازار میں اس کا کاسمیٹک کا دکان کھولنے کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ یہ ایک علاقے کی دکان ہے اور یہاں پر جتنے بھی لوگ ہیں تمام کے تمام انتہائی اچھے ہیں اس لیے اس کی دکان پچھلے 22 برس سے یہاں پر ہیں۔ اب انہوں نے اس دکان کے ساتھ دو تین دکانیں اور بھی کھولی ہیں۔ گاہک حوالے سے اس کا کہنا ہے کہ اگر 20 گاہک میرے دکان پر اتے ہیں تو اس میں 15 خواتین تین بچیاں اور دو مرد ہوتے ہیں۔
سونیا جس کا تعلق وزیر باغ سے ہے کا کہنا ہے کہ چوک بازار سے خریداری کرنے کا ایک فائدہ اسے یہ ہے کہ اسے پیدل اس بازار انا ہوتا ہے یعنی اس کا کوئی کرایہ نہیں لگتا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اج کل رکشے میں تقریبا 500 روپے کرایہ لگتا ہے وہ اسے بچ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ چند دن پہلے رمضان میں ہی سونیا کے گھر افطاری کے لیے مہمان ائے ہوئے تھے انہوں نے سونیا سے کہا کہ وقت بھی کم ہے اور ہمیں شاپنگ بھی کرنی ہے اور اب رات کو بہت دیر ہو چکی ہے۔ سونیا نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور مہمانوں کو رات کے 12 بجے چوک بازار لے گئی۔ وہ خواتین دیکھ کر حیران ہو گئی کہ یہاں پر تو بہت رونق لگی ہوئی ہے اور رات کے اس پہر تمام خواتین گھر سے نکلی شاپنگ کر رہی ہیں۔
سونیا نے کہا کہ یہاں سے شاپنگ کر کے ایک تو وقت کی بچت ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ عام بازار میں بم دھماکوں کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ اس بازار میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس لیے وہ یہاں سے خریداری کر کے بہت خوش ہے۔