لائف سٹائل

یورپ جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے احمد کی زندگی کا چراغ گل

 

محمد بلال یاسر

احمد کا تعلق باجوڑ کے پسماندہ علاقے ماموند لرخلوزو سے تھا۔ وہ کچھ عرصے سے غربت کے باعث تنگ آکر پشاور میں رہائش اختیار کرگیا اور ملتان میں معمولی کاروبار کرکے اپنے گھر کا چولہا جلانے لگا۔ کچھ عرصہ قبل اس کے رشتہ دار نے یورپ میں اس کے لیے کاغذات جمع کروائے جس کے بعد احمد یورپ جانے کے خواب دیکھنے لگا۔

کچھ عرصہ قبل احمد اپنے ماموں کے ہاں کنڑ افغانستان چلا گیا تاکہ وہ یورپ کے سٹیزن شپ کیلئے ضروری کاغذات تزکرہ وغیرہ بنوا سکے اور اپنے رشتہ داروں سے اجازت لے سکے۔ ( باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ ملحقہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف ایک ہی قوم ماموند رہتی ہے ، دونوں اطراف کے لوگوں میں خونی رشتے ہیں مگر گزشتہ بیس سالوں سے آمد و رفت معطل ہوگئی ہے اور خار دار کے بچائے جانے کے بعد تو نہ ہونے کے برابر رہ گئی )۔

پچھلے ہفتے احمد طورخم کی قانونی پیچیدگیوں والے راہداری کی بجائے قریبی راستے کٹکوٹ ماموند سے غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرکے باجوڑ آنا چاہتا تھا کہ راستے میں برف اور بارش نے آگھیرا۔ نیلی آنکھوں اور خوبصورت قد و قامت کے حامل احمد نے بہت ہاتھ پاؤں مارے ہوں گے ، بہت چیخ چلاہٹ کی ہوگی مگر ظاہر سی بات ہے کہ جہاں دور دور تک انسان نہ ہو جنگل ہو پہاڑ اور اوپر سے بارش و برف باری۔ یوں آہستہ آہستہ احمد کی زندگی کی ڈوری ٹوٹتی گئی اور احمد کی روح پرواز کرگئی۔

ڈیڑھ ہفتے بعد باجوڑ پولیس اور مقامی افراد نے طویل کوشش کے بعد کٹکوٹ ہدنگو کے مقام پر احمد ولد سرور خان کی لاش برآمد کرلی۔ لاش کو کیٹگری ڈی ہسپتال ماموند لایا گیا جہاں رقت آمیز مناظر تھے۔ احمد کے دوست اور رشتہ دار جو احمد کو یورپ رخصت کرنے کیلئے تیاری کررہے تھے وہ احمد کی لاش وصول کرکے لاش سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر عرش تک اپنی صدائیں بلند کررہے تھے۔ قبائلی نوجوانوں کا خواب پورا ہونے کی بجائے موت کے قصے پر تمام ہوتا ہے اور آخر کب تک ہوتا رہے گا۔

باجوڑ میں انسانی حقوق کے فعال کارکن ابوبکر ماموند کا کہنا ہے کہ دو اقوام کے درمیان قربت کو اتنے زیادہ فصلوں میں تبدیل کردینا عوام سے ان کا حق چھیننے کے مترادف ہے۔ حکومت قریبی راہداریوں کو آمد و رفت کیلئے انسانی بنیادوں پر کھول دیں تاکہ دونوں طرف کے اقوام ایک دوسرے کے ساتھ اپنی آمد و رفت کو ممکن بنائیں۔  انہوں نے کہا کہ دیگر راستوں میں طویل پیچیگیدیوں کے باعث یہاں کے مقامی لوگ یہ راستے اپناتے ہیں اور پھر اکثر اوقات ان کے بدن کے ٹکڑے درندے کھا جاتے ہیں۔ اس کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ کل کو کوئی اور احمد ان تاریک راہوں میں نہ اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button