رمضان المبارک میں مہنگائی نے عوام کے اوسان خطا کر دیئے
رفاقت اللہ رزڑوال
ملک میں رمضان المبارک کے پہلے ہفتے کے دوران مہنگائی میں اضافے سے پریشان عوام کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان میں خودساختہ مہنگائی نے ان کی قوت خرید متاثر کردی ہے۔ دوکانداروں کا دعویٰ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم معاشی ماہرین مستقبل قریب میں مہنگائی پر قابو پانا مشکل قرار دے رہے ہیں۔
ضلع چارسدہ کے رہائشی نوید خان نے بتایا کہ مرغی کی فی کلو گوشت 800 روپے میں خریدلی جبکہ ریٹ لسٹ میں 650 روپے قیمت تعین ہونے کے باوجود بھی انہیں مہنگی گوشت فروخت کر دی گئی۔
نوید کہتے ہیں کہ اشیائے خوردونوش ہر گھر کی ضرورت اور مجبوری ہوتی ہے۔ دوکاندار کو ریٹ لسٹ میں درج شدہ قیمت کا حوالہ دینے کے باوجود بھی اپنی مرضی کا ریٹ چلا دیتے ہیں مگر ‘کیا کریں سودا خریدنا تو پڑتا ہے’۔
چارسدہ سبزی منڈی سے پانچ بچوں کے والد اور چنگچی ڈرائیور رحیم اللہ نے کچھ سبزیاں اپنے گھر کیلئے خریدی ہے کہتے ہیں کہ سبزیاں اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کم کھانا دینا شروع کر دیا ہے۔
رحیم کا کہنا ہے کہ ان کی آمدن 5 سو سے 7 سو روپے تک ہے بشرطیکہ کہ اس دوران انہیں ٹریفک پولیس جرمانہ نہ کریں۔ اس مزدوری میں وہ اپنے گھر کے اخراجات، بچوں کے کپڑے ، سکول فیس، ادویات اور یوٹیلیٹی بلز کیسے پورے کریں گے؟ انہوں نے بتایا کہ اوپر سے دوکانداروں کی خودساختہ مہنگائی نے رہی کسر پوری کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 150 میں ٹماٹر، کچالو 250 اور آلو 200 روپے میں خرید لئے تو اس مزدوری میں اور کیا بچا، کیا یہ جائز ہے؟ "میری خود 50 روپے فی کلو سے زیادہ سبزی خریدنے کی استطاعت نہیں ہے”۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں نرخنامے کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ نرخنامے میں درج قیمتیں جانتے ہیں۔ دوکاندار جو قیمتیں بتاتے ہے اسی قیمت پر سودا خریدتے ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام دوکاندار اخلاقی اور شرعی طور پر ان نرخناموں پر عمل کرے جو ضلعی انتظامیہ نے جاری کئے ہو۔
ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں 1 اعشاریہ 35 فیصد مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے 18 اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ادارے کے مطابق ایک ہفتے کے دوران کیلے 22 فیصد، ٹماٹر 22 فیصد اور انڈے 7 فیصد سے زیادہ مہنگے ہوئے۔ اسی طرح پیاز کے نرخ میں بھی 6 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ لہسن، مٹن، بیف اور مرغی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی سالانہ شرح 32.89 فیصد تک پہنچ گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں لہسن کی قیمت 60 فیصد تک بڑھی، سالانہ بنیاد پرٹماٹر 185 فیصد جبکہ پیاز 90 فیصد مہنگے ہوئے، گڑ 41 فیصد، چینی کے دام بھی 37 فیصد بڑھ گئے۔
چارسدہ سبزی منڈی میں سبزی فروش مسعود خان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سبزیوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے بیرون ممالک اشیائے خوردونوش کی ترسیل پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے سبزیوں کے تازہ نرخ بتاتے ہوئے کہا کہ ٹماٹر 180 سے 150، پیاز 300 سے 200، آلو کچالو میں 8 سے 10 روپے کی کمی، مٹر ڈھائی سو سے 200، لوکھی 150 سے 100، کھیرا اور گوبھی 120 سے 100 روپے تک نیچے گر گئے۔
مسعود خان کہتے ہیں کہ جن سبزیوں کی قیمتیں 100 روپے سے اوپر ہے وہ سبزیان اکثر پنجاب یا کراچی سے منگوائی جاتی ہیں جس پر پٹرول اور ڈیزل کے مہنگا ہونے کے اثرات ہوتے ہیں جبکہ باقی سبزیاں جو صوبے کے اندر پیدا ہوتی ہیں ان کی قیمتیں قابل برداشت ہیں۔
اسی طرح مرغی فروش سمیع اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ حالیہ مہنگائی نے ان کا کاروبار سخت متاثر کیا ہے۔ باوجود اس کے رمضان سے پہلے فی کلو مرغ گوشت کی قیمت 450 تھی جبکہ آج 415 روپے چل رہا ہے مگر لوگوں کے پاس پیسے کی کمی سے مرغی گوشت کی خریداری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ رمضان المبارک میں وہ 30 من سے زائد مرغ گوشت فروخت کرتا تھا مگر اس سال مہنگائی میں اضافے نے لوگوں کی قوت خرید کم کرکے 10 من تک کردی۔ یہ گوشت مزید بھی سستی ہوگی کیونکہ طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تاہم معاشی ماہرین کو مستقبل قریب میں ملک میں جاری مہنگائی پر قابو پانا مشکل نظر آ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام، حکومتی اخراجات میں کمی لائی گئی اور حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کے حصول میں کامیاب ہوگئی تو کچھ نہ کچھ گزارہ ہوجائے گا۔
معاشی ماہر ڈاکٹر شاہد خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے شرح سود میں کمی لانا نہایت ضروری ہے جس سے ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور جب سرمایہ کاری شروع ہوجاتی ہے تو پیسہ کی ریل پیل سے کاروبار ترقی پاتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں شرح سود 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ہوسکتا ہے کہ 18 مارچ کو جاری ہونے والی سٹیٹ بینک کی پالیسی انٹرسٹ ریٹ میں 1 فیصد کمی ہوجائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی میں کمی کی رپورٹ ہے۔
ڈاکٹر شاہد کا خیال ہے کہ گو کہ ملک میں معاشی صورتحال بہتر ہوجائے مگر مستقبل قریب میں اسکے ثمرات عوام کو ملنے والے نہیں کیونکہ اگلے بجٹ میں حکومت 8 ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں سود ادا کرے گی جس سے مہنگائی میں کمی لانا مشکل ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر مقامی سطح پر مہنگائی پر قابو پانا مقصود ہو تو ضلعی انتظامیہ کو اپنی سہ ماہی پرائس کنٹرول کمیٹی اجلاس بلانے کے ساتھ ساتھ علی الصبح سبزی منڈیوں میں بولی کی حد مقرر کرنی ہوگی۔ اسکے ساتھ تاجروں کو پابند کرنا ہوگا کہ خوراکی اشیاء صرف ایک شخص کو فروخت نہیں کی جائے گی بلکہ مختلف تاجروں کو فروخت کی جائے تاکہ ایک ہی شخص کے ہاتھ میں قیمت کنٹرول کرنے کا اختیار نہ ہو۔