"باجوڑ میلہ ایسا ہے جس طرح مریدوں کے لئے اپنے مرشد کا دیدار”
شاہ خالد شاہ جی
45 سالہ محمد زیب ان کاروباری افراد میں سے ایک ہے جو ہر ہفتے کے دن ضلع باجوڑ کے مشہور صدیق آباد پھاٹک میلے میں آئیسکریم کا سٹال لگاتا ہے۔ ان کے مطابق “جب سے ہوش سنھبالاہے اسی وقت سے یہ ان کامعمول ہے۔ ان کو یاد نہیں کہ ابھی تک انہوں نے ایک میلے کا ناغہ کیا ہو اس لئے کہ اس سے ان کے خاندان کا معاش وابستہ ہے۔
محمد نے بتایا کہ ان کا روزگار پھاٹک میلہ اورضلع مہمند کے لکڑو میلہ میں آئیسکریم کے سٹال لگانے سے وابستہ ہے۔ ان میلوں میں سٹال لگانے سے ان کو اچھا منافع مل جاتا ہے لیکن ان دونوں میلوں میں پھاٹک میلہ سے نہ صرف ان کو زیادہ معاشی فائدہ ہوتا ہے بلکہ ان کے ساتھ دو لڑکے بھی کام کرتے ہیں جن کے گھر کا چولہا بھی جلا رہتا ہے کیونکہ یہ باجوڑ کا واحد اورمنفرد میلہ ہے۔ اس میں نہ صرف پورے ضلع باجوڑ سے لوگ خرید و فروخت اور تفریح کے لئے آتے ہیں بلکہ صوبہ خبیر پختونخوا کے دوسرے علاقوں سے بھی ایک معقول تعداد میں لوگوں کاروبار کی عرض سے یہاں آتے ہیں۔
محمد کے مطابق ان کا کاروبار گرمیوں اور سردیوں میں یکساں چل رہا ہے۔ باجوڑ کے مختلف علاقوں میں ان کے مخصوص گاہک بھی ہیں جو ہرمیلہ میں ان کے آئیسکریم کھانے کے لئے آتے ہیں۔ "موجودہ وقت میں آئسکریم کی ایک ڈبے کی قیمت 50 روپے ہیں جو گاہک بخوشی دیتے ہیں کیونکہ مہنگائی کے باوجود بھی انہوں نے آئیسکرم کا معیار برقرار رکھا ہے”۔
صدیق آباد پھاٹک میلے کا آغاز 1990 میں ہوا تھا۔ یہ میلہ باجوڑ ٹو پشاور مین شاہراہ پر ایک وسیع میدان میں ہفتے کے دن منعقد ہوتا ہے۔ شروع دن سے اب تک یہ میلہ بدستور جاری ہے اور اس میں مال مویشیوں، بوٹ وچپل،مختلف قسم کے لنڈے کا سامان، مرغیوں وپرندوں،مختلف کھانوں، سبزیوں اورالیکٹرانک سامان سمیت مختلف موسمی پودوں کی خریدوفروخت کا کاروبار خوب ہوتا ہے۔
میاں گل جان تحصیل خار کے گاؤں خزانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر ہفتہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب ہفتے کے دن ہوگا کہ وہ میلے میں جائے اور وہاں پرنہ صرف خریداری کریں بلکہ سیروتفریح بھی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ” صدیق آباد پھاٹک میلہ ان کے لئے ایک ایسی حیثیت رکھتا ہے جس طرح مریدوں کے لئے اپنے مرشد کا دیدار رکھتا ہے۔ یعنی میں لازمی ایک چکرمیلے کا لگاتا ہوں خواہ کچھ چیزخریدوں یا نہ۔ میاں گل کے بقول یہ ان کا پچھلے 30 سالوں سے معمول ہے”۔
پھاٹک میلے کو باجوڑ کے مقامی مالک نے ایک ٹھیکدار کو سالانہ ٹھیکے پردیا ہے۔ میلے میں ہر قسم کے سٹال لگانے اور دیگرچیزوں پر 10 روپے سے لیکر800 روپے تک مختلف نوعیت کا ٹیکس لیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے فروخت پر بھی ان کی قیمت کے لحاظ سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے زیادہ ترعلاقوں میں ہفتے کے مختلف دن میلے لگتے ہیں جس سے وہاں پرموجود بازاروں میں بھی کاروبار کو تقویت ملتی ہے اور لوگوں کو روزگار کے موقع میسرآتے ہیں۔
صدیق آباد پھاٹک بازار کے سابق صدر اور تاجرحاجی اکبرجان نے بتایا کہ پھاٹک میلے سے بازار میں بھی معاشی سرگرمیوں کو فروع ملا ہے اور دوسرے دنوں کے مقابلے میں ہفتہ کے دن بازار میں زیادہ لین دین ہوتا ہے کیونکہ میلے کے لیے باجوڑ کے کونے کونے سے لوگ آتے ہیں اور واپسی پر وہ بازار میں بھی خریداری کرتے ہیں اس لئے پھاٹک میلہ معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ میلے میں جن سہولیات کی کمی ہے اس کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرنا چاہیے تاکہ اس سے لوگوں کو مزید روزگار کے مواقع مل سکیں۔ انہوں نے اس حوالے سے تاجربرادری کی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا۔
محمد نے مطالبہ کیا کہ میلے میں نکاسی آب کا کوئی خاص انتظام نہیں اورجب بارش ہوتی ہے تو پھرکئی کئی ہفتوں تک میلہ گرائونڈ کے داخلی راستوں پر پانی کھڑا رہتا ہے جس سے کاروباری افراد کے ساتھ ساتھ میلہ آنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اس کا کوئی حل نکالا جائے اورساتھ ہی باتھ روم اورسائبانوں کا بندوبست بھی کیا جائے تاکہ کاروبار کو مزید فروع ملیں۔
صدیق آباد پھاٹک میلے کے ٹھکیدار آفتاب الرحمن نے بتایا کہ وہ ٹیکس وصول کرتے وقت انصاف سے کام لیتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی سے زیادہ ٹیکس لیا جائے۔ ٹیکس وصولی میں وہ لوگوں کے معاشی لحاظ کو بھی دیکھتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کی غریبی کے وجہ سے استثنی بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میلے میں تمام آنے والے لوگوں کو سہولیات فراہم کریں۔
میلے کے گراونڈ میں بارش کی پانی کے نکاس کے بارے میں آفتاب نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بات کی ہے لیکن یہاں مین شاہراہ پر تعمیراتی کام ہورہا تھا ہے جو اب مکمل ہوا ہے۔ اب بارش کے پانی کی نکاسی آب کے لئے جلد مربوط انتظام کرینگے جبکہ پینے کے پانی کے لئے ہینڈ پمپ کا بندوبست کیا ہے جس سے لوگ پانی پی رہے ہیں۔ لیٹرین کا انتظام اس وجہ سے ہم نہیں کر رہے کہ لوگ اس کے صفائی کا خیال نہیں رکھیں گے کیونکہ رش زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا صحیح استعمال ممکن نہیں ہے اس لئے اس کو نہیں بنایا۔
افتاب نے مزید کہا کہ وہ باجوڑ ٹی ایم اے کو سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جس سے حکومتی خزانہ کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق ان کے پاس سخاکوٹ، درگئی،بٹ خیلہ ،چکدارہ اور منڈا میلے کا ٹھیکہ بھی ہے لیکن باجوڑ میلہ میں دوسرے میلوں کی نسبت رش زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں پر صوبے کے مخلتف اضلاع کے علاوہ صوبہ پنجاب سے بھی خریدار آتے ہیں۔ باجوڑ میلہ معاشی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے اس میں ہر ہفتہ لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے جس سے مقامی لوگوں کو اپنے علاقے میں کاروبار کے مواقع میسر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ باجوڑ سمیت خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں کاروباری میلوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی میلوں کا بھی انعقاد ہوتا تھا جو معاشی و سماجی سرگرمیوں کا سبب ہوتا تھا لیکن پچھلے دو عشروں سے اس میں بہت کمی آئی ہے جس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔