لائف سٹائل

قوانین کے باوجود لاکھوں بچے آج بھی کم عمری میں مزدوری کرنے پر مجبور

 

کامران علی شاہ

آیان کی عمر بمشکل 8 سال ہوگی جو تیسری جماعت میں سکول چھوڑ کر موٹرسائیکل مکینک کے ورکشاپ میں شاگردی کررہا ہے۔ آیان کے مزدور والد نے انہیں گرمی کی چھٹیوں میں مکینک کے پاس بیٹھا دیا اور یہ جگہ آیان کو  ایسے بھاگئی کہ اس نے سکول بھی چھوڑ دی۔

آیان کہتا ہے کہ سکول میں اسکی کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ مکینک کا کام سیکھنا چاہتا ہے۔ آیان اپنے ننھے ہاتھوں سے دکان پر آنے والے گاہکوں کی موٹر سائیکلیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا کڑی دھوپ آیان کئی کلومیٹر دور چارسدہ کے علاقہ موجوکی سے سرڈھیری کام سیکھنے موٹر سائیکل مکینک کے دکان پر جاتا ہے جس میں انکو کئی قسم کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔

آیان نے پوچھنے پر بتایا کہ سکول چھوڑنے پر انہیں والدین کی طرف سے کسی قسم کے اعتراض کا بالکل بھی سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ یہاں انکو دن کا سو روپیہ ملتا ہے جو وہ ماں کو دیتا ہے۔ اوقات کار کے حوالے سے جب آیان سے سوال کیا گیا کہ دن میں کتنے گھنٹے کام کروایا جاتا ہے تو انکا کہنا تھا کہ صبح 8 یا 9 بجے سے رات 8 بجے تک کام کرتا ہوں جبکہ اس دوران آرام کا کوئی موقعہ نہیں ملتا اکثر اوقات کوئی کام غلط ہونے پر استاد سے مار بھی پڑتی ہے۔

اسی جگہ پر کام کرنے والے ایک اور شاگرد طلحہ کی کہانی بھی آیان سے مختلف نہیں ہے۔ طلحہ کی عمر 12 سال ہے اور ساتویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ کر موٹر سائیکل مکینک کے ساتھ شاگردی کر رہا ہے۔ طلحہ کا والد ترکھان ہے اور انہیں بھی اپنے بچے کی تعلیم چھوڑ کر موٹر سائیکل مکینک کا کام سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ طلحہ کہتا ہے سکول میں دل نہیں لگتا تھا پڑھائی میں بھی کمزور تھا اسلئے یہاں آکر کام سیکھنے لگا۔

موٹر سائیکل مکینک بلال جو طلحہ اور آیان کا استاد ہے کہتا ہے بچوں کو ہم کام پر نہیں رکھتے، ہاں اگر کوئی والد بچے کو کام سیکھنے کے لئے بٹھا دیتا ہے تو اس کو منع نہیں کرسکتے کیونکہ غربت بہت زیادہ ہے اور تعلیم کے بعد اچھی نوکری کے امکانات بھی زیادہ نہیں ہوتے۔

بلال کہتا ہے کہ سکول چھڑوا کر لائے گئے بچوں اور والدین دونوں سے ہم یہی کہتے ہیں کہ انکو تعلیم مکمل کرنے دے لیکن اکثر والدین اور بچے کام سیکھنے پر بضد ہوجاتے ہیں تو مجبورا انہیں اپنے ساتھ بٹھانا پڑتا ہے۔

آیان اور طلحہ کی طرح چارسدہ میں مختلف جگہوں پر بچے محنت مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہوٹلیں ،چائے خانے، زراعت اور زیادہ تعداد مستری خانوں کی ہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں کم عمر افراد کام کر رہے ہیں۔

یہ حال صرف چارسدہ کا نہیں خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں بڑی تعداد میں ایسے بچے موجود ہیں جو چائلڈ لیبر میں مصروف ہے۔ 1996 کے ایک سروے کے مطابق 11 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں پائے گئے تھے۔

سال 22-2021 میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے 47 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہے۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ محنت و افراد قوت نے صوبے میں مزدوروں کے اعداد وشمار پر مشتمل سروے جاری کیا گیا جس کے مطابق صوبے میں 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی آبادی تقریباً 82 لاکھ 82 ہزار 673 ہے جن میں 43 لاکھ 88 ہزار 618 لڑکے اور 38 لاکھ 92 ہزار 911 لڑکیاں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 7 لاکھ 45 ہزار155 بچے اس وقت چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور مزدوری کررہے ہیں۔ ان بچوں میں 3 لاکھ 78 ہزار 517 بچے زراعت، جنگلات اور ماہی پروری کے شعبے میں کام کررہے ہیں۔ ایک لاکھ 39 ہزار 865 واٹر کلیکشن، 71ہزار 215ہول سیل بزنس، 56 ہزار 742 مینوفیکچر انڈسٹری، 33ہزار 733 تعمیرات،15ہزار 85خوراک کے کاروبار، 14 ہزار 221 ٹرانسپورٹ اور 24 ہزار 209 دیگر شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔

اسی طرح 14 سے 17 سال عمر کے 21.6 فیصد بچے کام کرنے والے ہیں اور 15.5فیصد چائلڈ لیبر یا خطرناک کام میں ہیں۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے رپورٹ کی گئی بڑی چار صنعتوں میں زراعت، جنگلات، اور ماہی گیری میں 51.6 فیصد، پانی کا ذخیرہ 19.1 فیصد،ہول سیل اور ریٹیل تجارت 9.7 فیصد اور مینوفیکچرنگ 7.7 فیصد شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کئی سرکاری، سماجی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو کام کی جگہوں پر بچوں کے تحفظ ،اوقات کار سمیت جسمانی،جنسی تشدد اور قانون کے ساتھ تصادم میں آنے والے بچوں کو مدد اور آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

بچوں کے تحفظ کے حوالے سے گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کے صوبائی ذمہ دار عمران ٹکر سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ "ہمارا کام بچوں کے تحفظ کے مختلف ایشوز ،قوانین اور بچوں کے حوالے سے مذہبی تعلیمات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔مذہب ، شریعت ،قرآن و حدیث ،آئین ،قانون اور بچوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین سے بچوں ،والدین ،اساتذہ ،وکلاء ،ججز ،استغاثہ آفیسرز اور صحافیوں کی شعور و آگاہی اور استعداد کار پر کا م کرتے ہیں۔”

بچوں کے تحفظ کویقینی بنانے کے لئے عمران ٹکر اور انکی تنظیم پالیسی لیول پر آفشیلز ،اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ قوانین یا ان میں ترمیم کے حوالے سے لابنگ کرتے ہیں اور سسٹم کو مضبوط و مربوط بنانے پر کام کرتے ہیں،ٓ۔ ساتھ ہی بچوں کے مسائل ،ان مسائل کی اصل حقیقت اور تناسب کیا ہے ان تمام چیزوں پر تحقیقی کام کرکے رپورٹ بنائے جاتے ہیں جس کی بنیاد پر ایڈوکیسی پلان ترتیب دیی جاتی ہے۔

عمران ٹکر بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں سکولوں سے باہر بچے زراعت ،بھٹہ خشت ،ہوٹلز ،ورکشاپوں اور ایک حد تک کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ اسی طرح گھروں میں بھی بچے مزدوری کرتے ہیں اور دیہی علاقوں کی نسبت شہروں کے پوش علاقوں میں ہر آٹھویں یا دسویں گھر میں ایک مزدور بچہ موجود ہے۔

صوبے کے بڑے شہروں پشاور، مردان، سوات، ایبٹ آباد، کوہاٹ اور ڈی آئی خان میں بچے سٹریٹس میں مختلف قسم کی مزدوریاں کرتے ہیں۔ گند اُٹھانا ،چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرنا ،گھروں میں کام کرنا ،اشیاء کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور ٹرانسپورٹ میں کنڈکٹری کرنا شامل ہے۔

عمران ٹکر کے مطابق مختلف شعبہ جات میں کام کی جگہوں پر بچوں کو  ذہنی ،جسمانی اور جنسی  زیادتیوں کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ جہاں انکو نہ تو اچھی خوراک ملتی ہے ،نہ آرام کا وقت دیا جاتا ہے اور نہ ہی صحت وصفائی کا بہتر انتظام ہوتا ہے۔ مزدوری کے اوقات بھی بہت زیادہ جبکہ گھروں میں کام کرنے والے بچے تو 24 گھنٹے اپنے والدین سے دور زندگی گزارتے ہیں جہاں اکثر اوقات ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

کم اجرت میں بچوں سے انکی  ذہنیت ،قابلیت اور استعداد سے بڑھ کر کام لیا جاتا ہے جس کے اثرات انکے جسم ،ذہین اور اخلاق پر نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

عمران ٹکر کہتے ہیں کہ سٹریٹ میں رہتے ہوئے بچے ذہنی ،جسمانی اور جنسی زیادتیوں کا شکار ہوکر نشے کے  لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی شرح  80 سے 90 فیصد تک ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں سکول سے باہر بچوں کو داخل  کرانے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے لوگ بھی تگ و دو کر رہے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ کے لئے اقدامات اُٹھائے جارہے ہی، قوانین بن رہے ہیں ،ادارے بنائے گئے ہیں۔ لیکن صحیح طریقے سے عملدرآمدنہ ہونے کی وجہ ملک میں جاری مہنگائی ،بے روزگاری،سکولوں اور اساتذہ کی کم تعداد ،سکولوں تک رسائی اور خاص طور پر تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا رجحان بھی بہت کم ہے۔ اسلئے والدین بھی بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے انکو ہنر سیکھانے یا مزدوری کرانے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔

بچے اگر مزدوری میں ہے اور مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں تو ان جگہوں پر بچوں کو چائلڈ لیبر کے تحت کچھ حقوق بھی حاصل ہیں۔ اس بارے میں بچوں کےحقوق پر کام کرنے والے سینئر  قانون دان سعید عثمان ایڈوکیٹ سے پوچھا گیا کہ تو انکا کہنا تھا کہ ہرسال کام کی مختلف جگہوں پر تقریبا 300 بچے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ چائلڈ لیبر میں بچوں سے استعداد سے زیادہ کام لینا اور کم معاوضہ دینا عام سی بات ہے،حالانکہ چائلڈ لیبر قوانین کے مطابق بچوں سے تمباکو اور بھٹہ خشت میں کام نہیں کروایا جاسکتا اور نہ ہی ان سے زیادہ وقت کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دیگر قوانین اورضوابط موجود ہے لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے وجہ سے روز بروز چائلڈ لیبر میں اضافہ ہورہا ہے۔

گھریلو ملازمت میں بچوں کے حوالے سے تاحال کوئی ٹھوس قانون سامنے نہیں آیا۔ قانون سے تصادم میں آنے والے بچوں کے لئے صوبہ بھر میں 8چائلڈ پروٹیکشن کورٹس بنائے گئے ہیں لیکن  وہاں بھی قوانین کو اصل روح کے مطابق پریکٹس نہیں کیا جارہا۔

عثمان ایڈوکیٹ کے مطابق  قوانین بہت زیادہ ہے لیکن اصل  مسئلہ عملدرآمدکا ہے۔ قومی اور صوبائی سطح پر کام ہو رہا ہے قوانین موجود ہے ،وفاق میں نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ ہے۔ خیبر پختونخوا کی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 جس میں مزید بہتری کے لئے کئی  ترامیم کئے گئے اور 2011 میں اسی کے تحت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن بنایا گیا جس کے تحت صوبہ بھر میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح "زمونگ  کور”کے نام سے صوبہ بھر میں 5 چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹوٹ بنائے گئے ہیں جس میں پشاور میں دو ایک بچوں اور ایک بچیوں کےلئے ،ایبٹ آباد ،سوات اور ڈی آئی خان میں یہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ بچوں کیلئے تعلیم لازمی قرار دینے کے حوالے سے فری کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2017خیبرپختونخوا اسمبلی سے پاس کرایا گیا ہے۔

اس ایکٹ کے پاس کرنے سے پہلے صوبائی حکومت کی جانب سے بچیوں کی سرکاری سکولوں میں حاضری کو یقینی بنانے کے لئے تعلیمی وظائف کا سلسلہ 15-2014 سے شروع کیا گیا تھا جس کے لئے بجٹ میں 1.1ارب روپے مختص کئے گئے تھے جس سے 442030 بچیاں مستفید ہوچکی ہیں۔ اس پروگرام کے  تحت پرائمری سکول کے طالبات کو 1500 اور ششم سے دہم تک کے طالبات کو 2000 روپے ماہانہ دیا جاتا۔

اس کے بعد پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کم لاگت کے نجی تعلیمی اداروں  میں مستحق بچیوں کو داخل کرانے کےلئے واچر سکیم شروع کیا گیا جو کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح تعلیمی وظائف کا سلسلہ بھی اب بند ہوچکا ہے۔

مزدوری کرنے والے بچوں کےلئے سابق صوبائی حکومت کے دور میں سرکاری سکولوں میں سیکنڈ شیفٹ شروع کیا گیا تھا جس میں مختلف جگہوں پر مزدوری کرنے والے بچوں کو سیکنڈ ٹائم میں پڑھنے کی سہولت حاصل تھی تاہم اساتذہ کو فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی اب بند ہوچکا ہے۔

بچیوں کے لئے وظائف اور مزدور بچوں کے لئے سیکنڈ شفٹ میں تعلیم کے حکومتی اقدامات کے علاوہ کسی دوسرے ادارے یا سماجی تنظیم کی جانب سے خاص طور پر مزدور بچوں کے لئے کوئی ایسا اقدام تاحال سامنے نہیں آیا کہ جس میں کوئی بچہ مزدوری چھوڑ کر تعلیم کی حصول میں مشغول ہو گیا ہو اور اس کے تمام اخراجات اُٹھائے جاتے ہو۔

بچوں کے تحفظ اور فلاح کے بارے میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے چیف پروٹیکشن آفیسر اعجاز محمد خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے لئے جامع قانون سازی کی گئی ہے جس کی روشنی میں پراونشل فوکل پوائنٹ ،کے پی چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر کمیشن،12 بندوبستی اور ضم اضلاع میں کل 21 چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کام کر رہے ہیں۔

اعجاز محمد خان کہتے ہیں ان تمام جگہوں پر بچوں کو مکمل تعاون اور مدد فراہم کی جاتی ہے اسی کے ساتھ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی پر بھی کام جاری ہے تاکہ بچوں کے تحفظ اور فلاح وبہبود کو ممکن بنایا جاسکے۔ یہاں تشدد کے شکار بچوں کو مفت قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔جیلوں میں قید بچوں کو قانونی معاونت کے ساتھ انکے جرمانے بھی چائلڈ پروٹیکشن کی جانب سے ادا کئے جاتے ہیں۔

اعجاز محمد خان کہتے ہیں کہ گزشتہ دس سالوں میں 31 ہزار بچوں اور بچیوں کو مدد فراہم کی ہے۔ بچوں کے تحفظ کے ٹال فری نمبر پر 3500 کالز وصول کئے ہیں جس پر مختلف قسم کے شکایات آئی تھی۔ ان شکایات کی روشنی میں ان تمام بچوں کو مدد فراہم کی گئی ہے۔ زیادہ تر شکایات گھر سے بھاگے یا لاپتہ ہونے والے بچوں کے حوالے سے آئی تھی جس میں جہاں ان بچوں کو تلاش کرکے والدین کے حوالے کیا گیا ہے۔  کچھ یتیم بچوں کو خیبر پختونخوا حکومت کے بنائے گئے چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹوٹ”زمونگ کور”میں رکھا گیا ہے جہاں وہ مفت تعلیم اور ہنر سیکھنے کے ساتھ مفت رہائش ،متوازن غذا اور صحت کی سہولیات سے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔

گھروں میں کام کرنے والے بچوں ،بچیوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اعجاز محمد خان کا کہنا تھا صوبہ بھر میں ایسے کیسز سامنے نہیں آئے ہیں جہاں کسی گھر میں کام کرنے والے بچے پر کسی بھی قسم کا تشدد کیا گیا ہو۔ اعجاز محمد خان کہتے "میری نظر سے اب تک ایسا کوئی کیس نہیں گزرا ہے کیونکہ حکومت اور سماجی تنظیمیں اس حوالے بہت زیادہ کام کر رہی ہیں "۔

اعجاز محمد خان نے واضح کیا کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کا کام ہی بچوں کی تحفظ اور فلاح و بہبود ہے اسلئے ہماری کوشش ہوتی ہے بچوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ہر واقعہ پر نظر رکھی جائے۔ اور اسی تناظر میں  2019 میں پشاور یونیورسٹی کے سینئر اہلکارکی جانب سے بچے کی ویڈیو وائرل ہونے پر جامعہ کے پولیس سٹیشن میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ کے شق 34،37اور 44کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی جس کے بعدچائلڈ پروٹیکشن کورٹ پشاور نے انکی ضمانت قبل از گرفتاری ختم کرکے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

حکومتی اور سماجی تنظیموں کی  تگ و دو اور اتنے سارے قوانین اور اداروں کے باوجود آج بھی لاکھوں بچے سکولوں سے باہر کسی نہ کسی جگہ محنت مزدوری میں پائے جا رہے ہیں جہاں انکو کئی طرح خطرات کا سامنا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button