لائف سٹائل

”انسان بدل گیا تو قدرت نے بھی اپنے نظاموں کو تبدیل کر دیا”

یہ موسم اور یہ بارشیں ازل سے جاری اپنا طرزِعمل ہی بھول گئی ہیں

فہیم آفریدی

پشاور شہر سے سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مضافاتی علاقے، گڑھی مسافر پھندو روڈ، میں گزشتہ چالیس سال سے زائد عرصہ سے آباد امین الدین نومبر کے پہلے عشرے کے دوران نسبتاً گرمی، اور عشرے کے آخر میں تیز ہوا کے ساتھ ہونے والی موسلادھار بارش کو لے کر تشویش مند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج کا انسان بدل گیا ہے، اپنے خالق سے غافل اور ہر طرح کے گناہوں میں ڈوب کر، تو قدرت نے بھی اپنے نظاموں کو تبدیل کر دیا ہے۔

72 سالہ امین الدین ماضی میں جھانکتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آج سے 30 چالیس سال قبل نومبر کے مہینے میں جاڑے کا موسم ہوتا تھا؛ ایک جمعہ کو ہلکی دھیمی بارش شروع ہو جاتی تو اگلے جمعے تک، اور کبھی کبھی دس دس، بارہ بارہ دنوں تک مسلسل جاری رہتی تھی۔ اور سردی اتنی پڑتی کہ انسان کی ہڈیاں جیسے جم جاتی تھیں: "9 نومبر کو پشاور میں ہونے والی بارش "چیتر” اور "پھاگن” (گرمیوں کے مہینوں کے مقامی/دیسی نام) کے مہینوں میں ہوتی تھی لیکن اب جیسے یہ موسم اور یہ بارشیں ازل سے جاری اپنا طرزِعمل ہی بھول گئی ہیں۔”

گرین ہاؤس گیسز، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسی اصطلاحات سے نابلد، اور اپنے اعتقادات کی روشنی میں یہ ”انسان بدل گیا تو نیچر بدل گئی” والا فیصلہ دینے والے امین الدین کو یہ علم نہیں کہ انسان کے گناہ نہیں، اس کی مادی ترقی کے حرص و لالچ نے آج فطرت کو اُس کا سب سے بڑا دشمن بنا دیا ہے۔ سائنسی شواہد کے نتیجے میں سامنے آنے والی یہ تلخ حقیقت اب اقوامِ عالم کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے کہ موسم کے یہ بدلے تیور کسی اور کا نہیں ”کلائمیٹ چینج” کا ہی شاخسانہ ہیں۔ اور اِسی ڈراؤنے خواب کو لے ک دبئی میں ایک بار پھر عالمی سربراہان، سائنسدان و دیگر (کوپ 28- 30 نومبر تا 12 دسمبر) ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے رہے۔ یو این کلائمیٹ چینج کانفرنس یا کوپ28 کا ایجنڈا 2015 میں طے پانے والے تاریخی معاہدے (پیرس ایگریمنٹ پاکستان جس کا 2016 میں سگنیٹری ممبر بنا) میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اایمشنز میں ڈرامائی کمی اور زندگیوں اور زرائع معاش کو بچانے کیلئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔

صرف یہی نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اِن اثرات کی تصدیق و توثیق خیبر پختونخوا کی ایک پالیسی رپورٹ بھی کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کلائمیٹ چینج ایکشن پلان 2022 کے مطابق پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کلائمیٹ چینج کے باعث ویدر اور فوڈ پیٹرنز میں ہی تبدیلی نہیں آئی بلکہ تیز بارشوں کی وجہ سے آنے والے شدید سیلاب (2010 اور 2022 کی طرح)، پانی کی قلت اور سٹریس کی وجہ سے آنے والے ڈراؤٹس، اور طویل ہیٹ ویوز جیسی اچانک اور تباہ کن موسمی آفات کا بھی باعث بنا ہے۔ اور پھر یہ تباہ کن واقعات درجہ حرارت میں تبدیلیوں، بارشوں، فوڈ پروڈکشن، گلیشیئرز کے پگھلنے، موسموں میں تبدیلی، اور بائیوڈائیورسٹی کے خاتمے جیسی تبدلیوں کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت، زریعہ معاش، انفراسٹرکچر اور یہاں تک کہ ثقافت پر بھی اثرانداز ہوئے ہیں۔

زمینی حقائق کی سنگینی اور اِن سارے یا اِن میں سے کچھ اثرات کا اندازہ امین الدین کے گاؤں سے دس پندرہ منٹ کی واک پر واقع گاؤں، قدیم کلے، کے کسانوں کی اِن روداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اپنے 120 کنال کھیت میں گوبھی کی فصل کو یوریا دینے میں مشغول 39 سالہ فیض محمد نے بارشوں میں اِس تبدیلی سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ بارشیں تو وقت پر ہوتی ہیں: ”بارشوں میں تاخیر یا بے ترتیبی اللہ کے کام ہیں البتہ فصل کو لگنے والی بیماریاں انسان کو لگنے والے امراض کی طرح زیادہ ہو گئی ہیں اور اگر اِن کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو کسان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

‘گاؤں کی زمین گندم اور گنے سمیت ہر طرح کی فصل دے سکتی ہے’ کی یقین دہانی کرانے والے فیض محمد کے مطابق فصل اولاد کی طرح ہوتی ہے، اس پر خرچہ کرو گے اور اِس کی دیکھ بھال کرو گے تو یہ پھلتی پھولتی اور اچھی ہوتی جاتی ہے۔ تاہم اُسے یاد پڑتا ہے کہ پچھلے سال اسی مہینے اتنی بارش ہوئی تھی کہ اس کی گوبھی کی پوری فصل ہفتوں تک پانی میں ڈوبی رہی تھی جس کی وجہ سے وہ کھیت میں گوڈی دے سکا نہ ہی یوریا اور کھاد وغیرہ۔ اور نتیجتاً اُسے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

دوسری جانب اقبال جان، بہرام خان، اور اُن کے ساتھی، نے فیض محمد سے عدم اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی کے برعکس اب گاؤں کی زمین ہر طرح کی، اور اچھی فصل نہیں دیتی۔ گندم، گنے اور ٹماٹر کی کاشتکاری تو تقریباً سب نے ترک کر دی ہے کیونکہ اس میں کسان کو فائدے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گنے اور گندم کی پیداوار بھی اب کم ہو گئی ہے اور فصل بھی اکثر خراب ہوتی ہے۔ اِس کی وجوہات سے اقبال اور بہرام نے تو لاعلمی کا اظہار کیا لیکن اُن کے ساتھی کے نزدیک قریبی نالے کا زہرآلود اور کیمکل زدہ پانی اِس ساری خراب صورتحال کا ذمہ دار ہے۔

بارشوں کے اوقات یا پیٹرنز میں تبدیلی کو تینوں نے محسوس کیا ہے لیکن اِس تبدیلی کو وہ بھی امین الدین کی طرح قدرت کا نظام سمجھتے ہیں: "بارشیں وقت پر، وقت سے پہلے یا پھر تاخیر سے ہوتی ہیں، یا پھر کم یا زیادہ ہوتی ہیں یہ سب اللہ کے کام ہیں، اِس میں تو ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن اِس ندی یا نالے کا مسئلہ تو حکومت حل کر سکتی ہے۔ یہ مسئلہ حکومت نے کیا حل کرنا ہے، یہ تو وقت کے ساتھ سنگین ہوتا گیا ہے اور آج یہ حال ہے کہ ہماری زمینیں، ہماری فصلیں برباد، اور نتیجتاً اکثر کسان زراعت چھوڑ اور کھیتوں کو پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھوں بیچ کر خود بھی پراپرٹی دیلرز بن گئے ہیں اور یا پھر کوئی دوسرا کاروبار کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ایک زرعی ملک میں زراعت اور کسان کا یہ حال ہے۔” ساتھی کسان میں متاسف ہو کر بتایا۔

اِس ضمن میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی خیبر پختونخوا (ای پی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر افسر خان نے جاری منصوبوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ان کا مقصد موسمیاتی ‘ری زیلئنس’ کو بڑھانا ہے۔ بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (جی ایل او ایف) سے نمٹنے کے منصوبے، اور نکاسی آب کے نظام میں بہتری موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) سسٹم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں کی ایک مثال کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔

آب و ہوا اور ماحولیاتی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے صحافی فواد علی ایسے تحقیقی مطالعہ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جو خیبر پختونخواہ میں موسم اور بارش میں نمایاں تبدیلیوں کی نشاندہی کریں۔ صوبے کو 2021 کے موسم خزاں میں بارشوں کی غیرحاضری کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر جنوبی اضلاع، جنہیں خیبر پختونخوا کا فوڈ باسکٹ کہا جاتا ہے، متاثر ہوئے۔ بارشوں کی کمی کے باعث ہزاروں ہیکٹر اراضی گندم کی کاشت کے بغیر رہی جس سے خوراک کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ 40,000 میٹرک ٹن سے زائد کھادوں کو استعمال نہیں کیا جا سکا، جس سے زرعی شعبے کے لیے ایک چیلنجنگ منظرنامہ پیدا ہوا، اور موافقت پذیر حکمت عملیوں کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

ماہر ماحولیات و نباتات پروفیسر (ر) ڈاکٹر اکمل نے بتایا کہ اِس سے قبل ساٹھ سال کا ڈیٹا لے کر 2030 اور 2040 تک ہم نے جو موسم بارے پیش گوئی کی تھی تو اُس کے مطابق ہمارے صوبے میں ستمبر، اکتوبر، نومبر اور یہاں تک کہ دسمبر میں بارشیں کم ہوتی جائیں گی اور یہ بارشیں مون سون کی طرف جائیں گی جو پہلے جون جولائی، یا جولائی اگست میں ہوتی تھیں، اور اب وہ پہلے جون، پھر جون سے اپریل، اور اب اپریل سے مارچ کی طرف آ رہی ہیں۔ یعنی اِس پیش گوئی کے مطابق 2030 تا 2040 تک موسمِ سرما کی بارشیں تقریباً ختم ہو جائیں گی تاہم اِمسال کی طرح غیرمتوقع صورتحال کسی بھی سال میں سامنے آ سکتی ہے یعنی کہیں کہیں بارشیں ہو سکتی ہیں۔ ویسے ستمبر، اکتوبر اور یہاں تک کہ نومبر بھی گرم رہے گا اور لوگ گاڑیوں اور گھروں میں اے سی استعمال کریں گے۔ اور ایسے پہلے بھی ہوا ہے۔

ایڈاپٹیشن کے حوالے سے ڈاکٹر اکمل نے بتایا کہ یہ جتنا بھی کراپنگ پیٹرن چل رہا ہے اِس کے لئے ایک سالانہ ویدر کلینڈر چاہیے اور یا جو شفٹ آ رہی ہے اُس میں دیکھنا ہو گا کہ فصل کی گروتھ کا جو ایکٹیو فیز ہے، یا جو لائف سائیکل فیزز ہیں وہ کتنا متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے فصل کی کوالٹی یا پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ تو اِس کیلئے ایسی ورائیٹیز کراس یا پھر پیدا کرنا ہوں گی جو یہ شاکس برداشت کر سکتی ہوں: "دوسرا یہ ہے کہ ہمارا جو موجودہ کراپنگ پیٹرن چل رہا ہے اس میں جو یہ تبدیلی آئی ہے، یعنی موسم سرما میں اب جو یہ بارشیں ختم ہو جائیں گی تو خشک میدانی یا بارانی علاقوں میں جو گندم اگائی جاتی تھی وہ اب نہیں اگائی جائے گی۔ لیکن اِس کے ساتھ ان جو موسمِ گرما میں بارشیں زیادہ ہو گئی ہیں تو اِس میں وہ فصلیں جن سے ہم گھی نکالتے ہیں، اُن کیلئے پوٹینشل اور مواقع پیدا ہو رہے ہیں اِس لئے اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس بدلتی صورتحال میں ہر ریجن اور ہر علاقے مین کون سی فصل موزوں ہو گی جن کی بدولت ہم نہ صرف اپنی ضروریات پوری کریں، اور کاشتکار کا زریعہ معاش اور معیارِ زندگی بہتر بنائیں بلکہ انہیں ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرِمبادلہ بھی کما سکیں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button