"کھانے میں نمک تیز کیوں ہے؟”
ناہید جہانگیر
"روٹی گول کیوں نہیں بنائی ، کھانے میں نمک تیز کیوں ہے، کپڑے استری ٹھیک طرح سے کیوں نہیں کیے ، اسی بات پر ساس ،سسر سے پٹائی ہوتی تھی”
یہ کہنا ہے زیتون بی بی کا جس کی عمر 16 سال ہے۔ دو سال پہلے اس لئے اسکی شادی ہوئی کیونکہ باپ کا سہارا سر پر نہیں تھا۔
شادی کے بعد زیتون بی بی 14 سال کی تصور نہیں کی جا رہی تھی ان کو سسرال والے شادی شدہ خاتون سمجھ رہے تھے۔ کھانا بنانے سے لے کر روٹی بنانے تک ، برتن سے لے کر جھاڑو دینے، کپڑے دھونے اور استری تک کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آگئی تھی۔
وہ جو کرتی گھر والوں سے شروع دنوں میں ڈانٹ پڑتی لیکن کچھ دنوں کے بعد مارپیٹ شروع ہوگئی۔ اب زیتون بی بی پر بے ہوشی آتی ہیں اس لئے سسرال والوں نے میکے چھوڑ دیا ہے۔ یہ کہہ کر کہ پاگل اور پوہڑ بیٹی کو اپنے پاس رکھ لو، کوئی ضرورت ہی نہیں ہے واپس آنے کی۔
زیتون بی بی کے دو حمل ضائع ہوچکے ہیں مگر کیوں
زیتون بی بی اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال کے گائنی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں کیونکہ زیتون بی بی 2 دفعہ حاملہ بھی ہوچکی ہے اور دونوں مرتبہ اسکا بچہ ضائع ہوچکا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کے مطابق یہ سب ڈپریشن اور کم عمري کی وجہ سے ہوچکا ہے۔ اور اب ڈاکٹر نے سائکاٹرسٹ کو دکھانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔
یہ صرف زیتون بی بی کی کہانی نہیں ہے ایسی کتنی خواتین ہیں جو روزمرہ جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور یہ مسلہ نا صرف پاکستان کا ہے بلکہ پوری دنیا میں خواتین کسی نا کسی شکل میں تشدد کا شکار ہیں۔
خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے ہر سال 25 نومبر سے لے کر 10 نومبر تک بین الااقوامی سطح پر مہم چلائی جاتی ہے۔
اس سولہ روزہ ایکٹویزم کا بنیادی مقصد خواتین پر کی جانے والی تشدد کے روک تھام کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے تاکہ اس میں کمی لائی جاسکے۔
پاکستان میں تقریبا 32 فیصد خواتین جسمانی تشدد کا شکار ہیں
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 32 فیصد خواتین جسمانی تشدد کا شکار ہیں جبکہ اس میں سے 50 فیصد کھبی مدد نہیں مانگتی۔
اس حوالے سے ماہر ذہنی ونفسیاتی امراض اسسٹنٹ پروفیسر اعزاز جمال کا کہنا ہے کہ خواتین جنسی، ذہنی ،جسمانی سے لے آن لائن تک مختلف خوفناک شکلوں میں تشدد کا شکار ہیں۔ یہی چیزیں خواتین کو ذہنی طور پر بیمار کر دیتی ہیں جیسے ڈپریشن،انزائٹی وغیرہ ۔ مسلسل پریشانی کی وجہ سے خواتین ذہنی مریضہ بن جاتی ہیں اور پھر ہمارے جیسے معاشرے میں ذہنی مرض کو کوئی بیماری تصور کرتا بھی نہیں ہے۔
ذہنی امراض کی وجوہات
اعزاز مزید بتاتے ہیں کہ ذہنی امراض کی اہم وجوہات میں کم عمری میں شادی، پھر وقت سے پہلے ماں بننا، مناسب خوراک کا نا ہونا ، مارپیٹ،گالی گلوچ یا بے جا سختی شامل ہیں۔ آج کل ہر 5 میں سے 1 خاتون ذہنی مرض میں مبتلا ہیں ان میں سے زیادہ تر خواتین گھریلو تشدد کی وجہ سے ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ اور پھر گھر والے ان کا وقت پر علاج بھی نہیں کرتے جس کی وجہ سے خواتین میں خودکشی کا رحجان بھی بڑھ رہا ہے۔ وہ ذہنی طور پر بیمار ہوتی ہیں اس لیے پھر وہ اپنی خوشی موت میں ہی ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر اعزاز نے بتایا کہ جب بھی اکتاہٹ ،چڑچڑاپن، نیند نا آنا یا بہت زیادہ نیند آئے، کنٹرول سے باہر غصہ، عجیب قسم کے وسوسے یا زندگی سے بے زار ہونا ، اکیلاپن پسند ہونا جیسی علامات ظاہر ہوتو جلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ تعویز، دم یا جنات کے ساتھ ان علامات کو جوڑا جائے۔ وقت پر علاج سے بیماری جلد ختم ہوسکتی ہیں لیکن نا کرنے کی وجہ سے خطرناک ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر اعزاز کے مطابق وہ خود بھی آگاہی سیمینار اور ورکشاپ میں حصہ لیتے ہیں تاکہ گھریلو تشدد کی روک تھام میں اپنا رول ادا کر سکے۔ خواتین میں ذہنی امراض کی اہم وجہ گھریلو تشدد ہی ہے۔ 16 دن خواتین پر تشدد کے روک تھام کو عالمی سطح پر منانا اس کی کمی میں اہم رول ادا کرسکتا ہے کیونکہ گھریلو تشدد خواتین کے ذہنی امراض میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔