طورخم بارڈر پر سخت مشقت میں مصروف تین ہزار بچے
محراب آفریدی
گرمی ہو یا سردی دن ہو یا رات پاک افغان طورخم بارڈر پر محنت کش بچے اپنی مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ لنڈی کوتل بازار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان سرحدی گزرگاہ طور خم ہے جہاں پر افغانستان سائیڈ سے سینکڑوں بچے مختلف قسم کی اشیاء سگریٹ،انڈین نسوار،صابن وغیرہ لاتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ بچے بڑے ٹرکوں کے نیچے بھی اتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بچے حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔
نور خان ایک چکر میں ایک ہزار سے لے کر بارہ سو تک کماتا ہے
آٹھ سالہ نورخان کہتا ہے کہ روزانہ طورخم اتا ہوں غربت کی وجہ سے اکثر اوقات رات بھی طورخم میں گزار دیتا ہوں، افغانستان سائیڈ سے سگریٹ،نسوار وغیرہ پاکستان سمگل کرتا ہوں جو کہ انتہائی سخت اور مشکل وقت ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستان سے اجکل چینی افغانستان لے جاتا ہوں ایک چکر میں ایک ہزار سے لے کر بارہ سو تک کماتا ہوں۔ کبھی ٹرکوں کے نیچے اور کبھی کنٹینر کے اوپر چڑھ کر اور کبھی رش میں دوڑ کر اس طرح سامان اپنی جگہ لے جاتا ہوں۔ پاکستان میں طورخم سائیڈ پر بڑے بڑے گودام ہوتے ہیں جہاں پر ہم سامان مالک کو حوالہ کرتے ہیں اس طرح ا فغانستان میں بھی بڑے گودام ہوتے ہیں جہاں سے ہم سامان لاتے ہیں۔
طورخم میں مزدور یونین کے سابق صدر فرمان شینواری نے بتایاکہ موجودہ وقت میں سرحد پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں میں تین ہزار سے زائد مزدور کام کررہے ہیں جن میں سترفیصد بچے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ دستمبر 2015میں پشاور پر آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت دیگر اقدامات کے ساتھ افغانستان کے ساتھ سرحد پر آنے جانے کے لئے ویزے کی شرط کو لازم قرارد یا گیا۔ جبکہ2016 میں سندھ میں بم دھماکے کے بعد اس میں مزید سختی کردی گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ پہلے بڑے عمر کے مزدور کام کرتے تھے لیکن پابندیوں کی بناء پر بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
مشقت میں مصروف بچوں کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی اعداد شمار موجود نہیں
خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم سماجی کارکن عمران ٹکر نے کہاکہ مختلف شعبوں میں بچوں سے مشقت لینا، جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا پاکستان اور افغانستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں بڑا مسئلہ ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مشقت میں مصروف بچوں کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی اعداد شمار موجود نہیں جس کی وجہ سے سکول سے باہر بچوں کے فلاح وبہود کے لئے موثر منصوبے شروع نہیں کئے گئے۔ اُن کے بقول آخری سروے 1996 میں ہوا تھا جس کے مطابق ملک میں 33لاکھ( 3.3ملین) بچوں سے چند مخصوص شعبوں میں مشقت لیاجاتا ہے لیکن آجکل دیکھا جائے تو اس تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد شمار کے مطابق ملک ایک کروڑ بچے مشقت میں مصروف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صوبائی محکمہ لیبر نے 2017 میں صوبے بھر میں سروے کا آغاز کردیا تھا تاہم اب تک سروے رپورٹ سامنے نہیں آئی۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلیفر کمیشن خیبرپختونخوا کے سربراہ اعجاز محمد خان نے کہا کہ صوبے میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے کوششیں کی جارہی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ پہلے سروے کی نسبت مشقت میں مصروف بچوں کے نئے اعداد وشمار خیبر پختونخوا میں زیادہ ہونگے اور اس کی بنیادی کئی وجوہات ہیں جن میں قدرتی آفات، افغان مہاجرین، بدامنی اور ضم اضلاع سمیت وہ تمام شعبے سروے میں شامل کئے گئے ہیں جو پہلے میں نہیں تھے۔
بچوں کے تحفظ کے لئے باقاعدہ ایک کرسٹل بنایا گیا ہے
طورخم سرحد پر کسٹم اور وفاقی تحْقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق ویزے پر روزانہ پانچ ہزار افراد آتے اور جاتے ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد بچے سرحد غیرقانونی طریقے سفر کرتے ہیں جوکہ اپنے پاس افغانستان سے حجامت کے بلیڈ، انڈین نسوار، سگریٹ، صابن، کاسمٹکس اور خوردنی تیل سمگلنگ کرکے پاکستان لاتے ہیں۔
طورخم میں مزدور بچوں کے حوالے سے اعجاز محمد خان نے کہا کہ کمیشن بالکل اُن کے مسائل سے آگاہ ہے اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں پر بچوں کے تحفظ کے لئے اقدمات کئے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان بچوں کے تحفظ کے لئے باقاعدہ ایک کرسٹل بنایا گیا ہے جن میں بچوں اور مہاجرین کا عالمی ادارہ، انٹرنیشنل ریڈکراس، افغان کمشنریٹ، افغان قونصلیٹ او رسرحدی حکام شامل ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ سرحد پر مشقت میں مصروف بچوں کو جنسی اورجسمانی استحصال کے علاوہ جانی خطرات بھی درپیش ہے۔ کچھ افغان بچوں کی نشاندہی کرکے مزکورہ اداروں کی مدد سے افغانستان میں اپنے خاندان والوں تک پہنچائے گئے ہیں۔