ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا خیبر پختونخوا
محمد فہیم
صوبہ خیبر پختونخوا ہر گزرتے دن کے ساتھ مالی بحران کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور اس کا نقصان صوبے کو آئندہ کئی برسوں تک اٹھانا پڑے گا۔ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے جون 2023 میں جب چار ماہ کے اخراجات کی منظوری دی تھی تو اس وقت آمدن کے حوالے سے کوئی تخمینہ نہیں بتایا گیا تھا تاہم اب جب وہ چار ماہ مکمل ہونے کو ہے تو اخراجات اور آمدن میں واضح فرق ہونے کی وجہ سے صوبے کو ڈیڑھ سو ارب سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
نگران وزیر خزانہ احمد رسول بنگش کے مطابق وفاق سے فنڈز کی فراہمی کیلئے کئی بار رابطہ کیا گیا ہے 15سے زائد خطوط بھی لکھے گئے ہیں۔ امید ہے وفاقی حکومت صوبے کے فنڈز کا اجراء یقینی بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مالی صورتحال انتہائی خراب ہے تاہم اس کے باوجود اخراجات پورے کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ قبائلی اضلاع کے اخراجات بھی صوبہ اپنے وسائل سے برداشت کررہا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے مالی خسارے کو قابو کرنے کیلئے اب تک واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی ہے اور اس پر تنقید سینئر صحافی بھی کررہے ہیں۔ پشاور کے سینئر صحافی شاہد حمید نے اس حوالے سے بتایا کہ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہے اور وفاق سے درخواست کی جائیگی۔ ہیلتھ کارڈ بی آر ٹی اور دیگر منصوبوں کو چلانا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ ہر ماہ حکومت کو اب تنخواہیں پوری کرنے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ جون میں تنخواہوں میں اضافہ کے فیصلے کی مخالفت محکمہ خزانہ اور کئی کابینہ ممبران نے کی تھی لیکن اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے دباﺅ میں یہ تنخواہیں بڑھائی گئیں جس نے صوبے کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ اس وقت کا غلط فیصلہ آج ثابت ہوگیا ان تمام مسائل کے حل کیلئے صرف اور صرف مرکز سے اپنا حق لانا ہوگا تاہم ایسا لگتا نہیں ہے کہ مرکز اتنی بڑی رقم فوری طور پر فراہم کردیگا۔
وفاق کی جانب سے صوبے کے پن بجلی خالص منافع، قابل تقسیم محاصل، سیلاب متاثرین، سستا آٹا سکیم اور قبائلی اضلاع کے جاری اخراجات کی مد میں 3ہزار ارب سے زائد کے بقایاجات ہیں۔ صوبائی حکومت جہاں اپنے ترقیاتی پروگرام پر بھاری کٹ لگا چکی ہے وہیں اب حکومت کے پاس جاری اخراجات پورے کرنے کے پیسے بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے صوبہ ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
سینئر صحافی شہاب الدین کہتے ہیں کہ تنخواہوں کے اضافہ کی واپسی، کٹوتی اور الاﺅنس ختم کرنے والے تینوں آپشنز پر حکومت نے کافی غور کیا ہے اور یہ آج نہیں تو کل عملا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، لیکن سخت دباﺅ کے باعث اسے ابھی نافذ نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کے پاس تنخواہ کی ادائیگی کیلئے بھی پیسے نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی بندش اور کٹوتی کے حوالے سے صوبے کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ شہاب الدین کہتے ہیں کہ لگ ایسا رہا ہے کہ صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگانے کے حالات پیدا کئے جائیں۔ ایسا کرنے سے ملک بھر میں انتخابات ملتوی کرنے کا جواز بن جائیگا اور اس صوبے کو ایک بار پھر استعمال کیاجائیگا۔ صوبے کا خسارہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب وفاق کے ساتھ خط و کتابت، تنخواہوں کٹوتی اور کفایت شعاری کر بھی لی جائے تو ایسا ممکن نظر نہیں آرہا کہ صوبہ اس خسارے سے نکل سکے گا۔