کلائميٹ چینج کی وجہ سے کچھ ہی سالوں میں غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے: ماہرین
ناہید جہانگیر
40 سالوں سے زمینداری کررہا ہوں لیکن کچھ سالوں سے زمینیں جو کبھی زرخیز ہوا کرتی تھی روز بروز بنجر ہو رہی ہیں وہی زمین ہے وہی بیج لیکن پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔
ضلع چارسدہ کے گاؤں عمرزئی کا رحیم خان کہتا ہے کہ وہ پچھلے 40 سالوں سے زارعت سے وابستہ ہے۔ نا صرف وہ بلکہ ان کے آباواجداد بھی یہی زمینداری کرتے تھے۔ ان کے اپنے آلوچے،خوبانی اور ناشپاتی کے باغات تھے ساتھ ساتھ مکئ، گندم اور ہر قسم کی سبزیاں اپنی زمین پر اگایا کرتے تھے لیکن ہر سال سبزیوں کی پیداوارمیں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور باغات تو بالکل ختم ہوگئے ہیں۔ وہی زمین اور پانی ہے، ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ نئے الات اور مشینوں سے زرعی حالات اچھے ہوتے لیکن نہیں پیداوار میں کمی ہورہی ہے اور ایک سے دوسرے سال حالات ابتر ہور ہے ہیں۔ رحیم خان کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں آنے والے دور میں لوگوں کو غذائی قحط کا سامنا نا کرنا پڑے۔
پشاور کی فاطمہ کہتی ہیں کہ موسمی سبزیاں بھی اب کافی مہنگی ہوگئی ہیں اگر وہ صرف ٹماٹر کی بات کریں تو گرم علاقوں کی خاص پیدوارا ہیں اور گرمیوں میں ٹماٹروں کی قیمت بھی سردیوں کی نسبت کافی کم ہوتی تھی لیکن اس سال وہی 100 یا 80 روپے کلو تک فروخت ہوئے ہیں۔ اس طرح فروٹ جو کبھی ان علاقوں کی خاص پیداوار ہوا کرتی تھی اب ملتی نہیں اگر ایکا دوکا جگہ مل بھی جائے تو غریب لوگ اسکو خرید نہیں سکتے کیونکہ قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔
فاطمہ کہتی ہیں 15 یا 20 سال پہلے ناشپاتی اور آلوچے عام فروٹ ہوا کرتے تھے کوئی کھاتا بھی نہیں تھا ہر گلی میں دکان اور ریڑھی والا فروخت کرتا تھا لیکن اب یہ فروٹ نایاب ہوگئے ہیں۔ قیمت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ عام مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہوتے۔
بڈھ بیر پشاور کا 70 سالہ رفیق جن کو لوگ رفیق کاکا کے نام سے جانتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ بھی زمینداری کرتے تھے اور اب انکے بچے بھی یہی کام کرتے ہیں۔
فاطمہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقعی موسمی سبزیاں بھی اب مہنگی ہوگئی ہیں اسکی ایک وجہ تو ظاہر ہے مہنگائی ہے لیکن دوسری اہم وجہ آب و ہوا کا اثر ہے۔ ہر قسم سبزی یا پھل کے لئے مناسب درجہ حرارت اور وقت پر پانی کی ضرورت ہوتی ہیں۔ درجہ حرارت کبھی کم اور کبھی ایک دم سے زیادہ ہوجاتی ہے اور اس طرح جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بارش نہیں ہوتی اور جب ضرورت نا ہوتو کافی بارشیں ہوجاتی ہیں جس سے پیداوار کم ہو رہا ہے تو کم پیداوار کی وجہ سے مارکیٹ میں سبزیوں اور پھل کی قیمت بڑھ رہی ہیں۔
رفیق نے مزید کہا کہ بارشوں میں کمی بیشی بھی زرخیز مٹی کو متاثر کر رہی ہے جس سے باغات اور زرعی زمین ختم ہو رہی ہے یا اس میں کمی ہورہی ہے کیونکہ زراعت کا سارا دارو مدار مٹی کی زرخیزی پر ہے۔
کیا واقعی مٹی کی زرخیزی پر بھی موسمیاتی تبدیلی کا اثر ہو رہا ہے اس حوالے سے خیبر پختونخوا موسمیاتی تبدیلی کے سابقہ ڈائریکٹر اور پشاور یونیورسٹی ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر اکمل خان کہتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج کے اثرات کی وجہ سے بارش کی سائیکل تبدیل ہوگئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیل ہو گی۔
اب گرمیوں میں بارشیں زیادہ ہوں گی جبکہ سردیوں میں جو بارشیں ہوتی تھی وہ ختم ہو جائیں گی۔ پچھلے 10 سے 20 سالوں میں ستمبر سے دسمبر تک خشک سالی چلتی ہے اس سال ستمبر میں بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے سردی کا موسم ذرا جلدی شروع ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے اگر دیکھا جائے تو نومبر تک لوگ پنکھے کا استعمال کرتے ہیں جب بھی بارشیں کم ہوتی ہیں تو فصلوں کو ٹیوب ویل یا نہروں کا پانی دیا جاتا ہے لیکن جہاں تک قدرتی بارش کی اگر بات کی جائے تو وہ قدرتی پانی ارد گرد تمام مٹی کو تر کر دیتی ہے اس لئے بارش اور نہروں یا ٹیوب ویل کے پانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے بارش سے تمام مٹی تر ہوکر زرخیز ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اکمل بتاتے ہیں کہ جتنے بھی پودے ہے سبزیاں ہے یا جانوروں کے لیے جو بھی پلانٹس ہیں ان کا 85 سے 95 فیصد دارومدار پانی پر ہی ہے۔ اگر پانی یا مٹی زرخیز نہیں ہے تو پیداوار بھی کم ہی ہوگی بارشوں کی کمی کی وجہ سے فصلوں کے لیے ایک بڑا خطرہ نظر ارہا ہے یہاں جو بھی زمین ہے اس میں ارگینک میٹر کانٹینٹ یعنی نامیاتی مادے ون فیصد ہے اگر وہ بہت ہی زرخیز زمین بھی ہے لیکن ایک فیصد پھر بھی انتہائی کم ہے کیونکہ زیادہ تر زمینوں پرصرف یوریا کا استعمال ہوتا ہے جس سے زمینوں سے نامیاتی مادے ختم ہوگئے ہیں جو فصلوں کی پیداوار کے لئے نقصان دہ ہیں۔
ڈاکٹر اکمل خان مزید کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی بنیادی طور پر آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں سے مراد ہے وہ ہوا جو مٹی کے اوپر درجہ حرارت کو بڑھاتی ہے اس کا بالواسطہ اثر مٹی کے درجہ حرارت پر پڑتا ہے جو بیج کے اگنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اور وہاں بڑھنے کے بعد بھی ضروری ہوتا ہے لہٰذا موسمیاتی تبدیلیوں سے مٹی کے درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلی نے فصلوں کے بڑھنے کا وقت بدل دیا ہے اور اسی طرح دوسرے علاقوں میں کچھ فصلیں اور سبزیاں اگانے کا موقع بھی پیدا کیا ہے جو پہلے پودے نہیں لگا سکتے تھے۔ اس کے بعد پودوں کی نشوونما کا نظام قدرتی طور پر جڑ سے تنے کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور جب ہوا یا مٹی کا درجہ حرارت پودے کے لائف سائیکل میں تبدیل ہوتا ہے تو اس تناسب کو متاثر کرتا ہے اور پیداوار اور معیار پر اثر انداز ہوتا ہے۔
سابقہ ڈائریکٹر کلائمیٹ چینج ڈاکٹر اکمل خان کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ اس کی پلاننگ کریں کہ بارش کا پانی کم سے کم استعمال ہو اور زیادہ ضائع نا ہو اس کو ذخیرہ کریں جب بھی فصلوں کو وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہو تو آب پاشی میں استعمال کیا جائے۔ کیونکہ زمین کی زرخیزی کے لیے پانی کا 70 فیصد حصہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت زمین یا مٹی میں ارگینک میٹرکانٹیںٹ کی دستیابی کو یقینی بنائیں اسکے ساتھ ساتھ گھروں سے جو بھی کوڑا کرکٹ نکلتا ہے اس میں زیادہ تر پلاسٹک ہوتا ہے اسکے پارٹیشن کا انتظام کریں۔ پلاسٹک کو الگ کر لیں اور جو چیزیں قدرتی ہوں جو یوریا کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے اس کو الگ کیا جائے۔ اکمل خان نے کہا ہمارے ہاں تمام کوڑا پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے پلاسٹک کو الگ کر کے ریسائیکل کیا جائے تو مٹی کی زخیزی پر منفی اثر انداز نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بارش کے سائیکل کے ساتھ ساتھ آج کل سب سے زیادہ نازک مسئلہ پلاسٹک کا کثرت سے استعمال ہے جو کھیت میں مسلسل منتقل ہور ہے ہیں اور پھر یہ بہت چھوٹے نینو پارٹیکلز میں تبدیل ہوتے ہے اور جو پھلوں اور سبزیوں خصوصاً جڑوں والی فصل میں پھیلتے ہے جو انسانوں اور جانوروں کے جسم میں منتقل ہوتے ہے۔ تو مٹی کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ انسان اور جانوروں کے صحت کے لئے بھی نقصان کا باعث بن رہا ہے۔