لائف سٹائل
کمال بن اور مالکنڈی کو نیشنل پارک کا درجہ دینا مقامی لوگوں کا معاشی قتل ہے: علاقہ عمائدین
مانسہرہ میں علاقہ عمائدین نے الزام لگایا ہے کہ محکمہ واٸلڈ لاٸف نے جھیل سیف الملوک اور لولو سر کو نیشنل پارک کا درجہ دیکر عالمی اداروں سے اربوں کے پراجیکٹ فاٸلوں میں مکمل کئے لیکن اس کا مقامی کمیونٹی اور علاقے کو کوٸی فاٸدہ نہیں پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑے علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ دیکر لوگوں کا معاشی و ثقافتی قتل کیا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کمال بن وادی کاغان کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لوگوں کا معاشی قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے گھر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
عمائدین علاقہ کے ایک وفد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوٸے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت کمال بن اور مالکنڈی کو نیشنل پارک کا درجہ دے رہی ہے جو کہ مقامی لوگوں کا معاشی قتل ہے۔ محکمہ جنگلی حیات بیرونی ڈالروں کی خاطرلوگوں اور جنگلی حیات کا استحصال کا منصوبہ بنا رہی ہے. اس سے پہلے بھی جھیل سیف الملوک اور لُو لو سر نیشنل پارک بنایا گیا تھا جس میں اربوں روپے کے پراجیکٹ فائلوں میں بنائے گئے مگر جنگلی حیات اور مقامی کمیونٹی کو کوٸی فاٸدہ نہیں ہوا اور انکی حالت پہلے سے ابتر ہے۔
اہلیان علاقہ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہزارہ میں پہلے سے موجود نیشنل پارکس کی غیر جانبدار سروے اور انکوائری کرائی جائے کہ ان نیشنل پارکس کے قیام سے حیاتیاتی تنوع میں کتنی بہتری آئی اور لوگوں کی معاشی اور ثقافتی طرز زندگی پر کیا اثر پڑا۔
کمال بن اور ملکنڈی کے جنگلات پہلے سے ریزرو(Reserved)جنگلات ہیں جو کہ صدیوں سے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور اسکی وجہ سے حکومت اور مقامی لوگوں کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا اور جنگلات کا انتظام بھی بہتر طریقے سے چلا آ رہا ہے۔
کمال بن اورمالکنڈی نیشنل پارک کے خلاف چیئرمین ویلج لونسل کمال بن ابرار احمد خان اور تحصیل ناظم بالاکوٹ سید ابراھیم احمد شاہ نے تحصیل کونسل سے ایک متفقہ قراردار پاس کی تھی جس میں حکام بالا چیف سکریڑی ، سکریڑی جنگلات سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیشنل پارک کے نوٹیفیکشن کو واپس لیا جائے تاکہ مقامی لوگ اپنی زندگی احسن طریقے سے گزار سکیں۔
ملکنڈی اور کمال بن کا بیشتر حصہ جنگلات ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں کا کوئی گزارہ نہیں اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش ہے۔ وفد وزیراعلی خیبر پختونخوا، چیف سکریٹری اور سکریٹری جنگلات سے مطالبہ کیا ہے کہ نیشنل پارک کے منصوبے کو ختم کیا جائے اور اگر حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو برٹش سرکار کو دئے گئے یہ جنگلات مالکان کو واپس کیئے جائیں کیونکہ برٹش سرکار کو یہ جنگل مالکان کی طرف سے دیئے گئے تھے جن کا مقصد حکومت کے معاشی معاملات اور مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے مینج کرنا تھا نہ کہ ڈالروں کے عوض این جی اوز کی تحویل میں دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کمال بن اور ملکنڈی کو نیشنل پارک قرارد ینا صوبائی حکومت کا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ عوامی مفاد کے خلاف کسی بھی منصوبے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ سابقہ سینٹر اور وفاقی وزیر قاسم کا کہنا ہے کہ
کمال بن اور ملکنڈی نیشنل پارک کے قیام کی وجہ سے لوگوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے عوامی مفادات کے خلاف حکومت کا یہ فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے۔ نیشنل پارک کے نام پر لوگوں کو معاشی قتل عام بند کیا جائے۔
سابقہ وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ مقامی آبادیوں کی مرضی کے خلاف نیشنل پارک بنانا عوامی مفاد میں نہیں یہ حقوق سلب کرنے اور وادی کے اندر انتشار کا باعث بنے گا ہمیشہ عوامی حقوق کی بات کی ہے۔ سابقہ ایم پی اے میاں ضیاء الرحمان نے کہا ہے کہ اس سے پہلے بھی جو نیشنل پارکس بنائے گئے تھے ان کی وجہ سے بھی عوام کے نقصانات ہوئے اور ان کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا محکمہ جنگلی حیات کو اس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
تحصیل ناظم سید ابراہیم شاہ نے کہا ہے کہ تحصیل کونسل کی جانب سے نیشنل پارک کو ختم کرنے کی قراردار متفقہ طور پر منظور کی گئی لہذا صوبائی حکومت قراردار پر فوری عمل درآمد یقینی بنائے۔ علاوالدین خان صدر فارسٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ
ریزرو فارسٹ کو نیشنل پارک بناتے وقت مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مقامی لوگوں کے حقوق فارسٹ لاز، واجب العرض اور ہزارہ گزٹیر میں موجود ہیں نیز اس سے جنگلات ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوں گے۔
کمال بن کے وی سی ابرار احمد خان نے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے پر علاقہ کی عوام میں بے چینی اور اضطراب ہے۔ اگر حکام بالا نے اس خونی منصوبے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو نقص عامہ کا خطرہ ہو گا اور لوگ بھرپور احتجاج کریں گے۔