لائف سٹائل

پشاور میں خشک میوہ جات سے وابستہ افراد اپنا روزگار کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

آفتاب مہمند

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کے باعث پشاور میں واقع خشک میوہ جات کے مارکیٹس بھی ویران ہو کر رہ گئیں۔ پشاور کے اشرف روڈ، نمک منڈی اور پیپل منڈی میں واقع مارکیٹس میں 70 فیصد سے زائد ڈرائی فروٹس کے کاروباریوں نے اپنے روزگار کو خیر آباد کہہ دیا۔

متحدہ ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن پشاور کے صدر محمد یوسف نے رابط کرنے پر بتایا کہ آج سے 7 سال یا اس سے زائد عرصہ قبل پشاور میں 500 سے لیکر 600 تک افراد ڈرائی فروٹس کے ہول سیل کا کام کرتے تھے جو اب کم ہو کر ڈیڑھ سو تک رہ گئے۔

محمد یوسف کے مطابق پشاور کے مارکیٹوں میں 70 فیصد تک ڈرائی فروٹس افغانستان سے آتے ہیں۔ اسی طرح ایران سے پستہ، بھارت سے کاجو، انڈونیشیا سے کوپرا اور کاغذی اخروٹ امریکہ سے یہاں سپلائی کیا جاتا ہے، لیکن جب سے مہنگائی کی لہر شروع ہوئی ہے تب سے دیگر کاروباروں کے ساتھ یہ روزگار بھی شدید متاثر ہونے لگا۔ اسی طرح بارڈرز کی بندش، ٹیکسز میں اضافے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے باقی رہی سہی کسر پوری کردی۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے اب ڈرائی فروٹس انگور اڈہ کے ذریعے یہاں پر لایا جاتا ہے جو کافی لمبا روٹ ہے۔ سکھر، چترال و گلگت بلستان سے بھی مال لاکر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کے کرایے کافی بڑھ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو بھی ڈرائی فروٹس مہنگے داموں پر ملتے ہیں۔ 2016 یا اس سے قبل ایک کلو ڈرائی فروٹ پر 6 سے 12 روپے جبکہ اب 250 سے لیکر 400 روپے تک ٹیکس دینا پڑتا ہے زیادہ تر ڈرائی فروٹ بیرون ممالک سے آتا ہے جس کی خریداری ڈالر میں کی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب سے ڈالر کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو ساتھ ساتھ ڈرائی فروٹ کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہے جس کے باعث مارکیٹ پر اثر پڑھنے سے اس کاروبار سے وابستہ افراد شدید متاثر ہوگئے ہیں۔ محمد یوسف کے بقول ماضی میں روزگار کرنے والے کئی افراد نے چونکہ ایک بڑی سطح پر انوسٹمنٹ کی تھی تاہم حالات خراب ہوتے ہی ان کا انوسٹمنٹ بھی ڈھوب گیا جس کی وجہ سے لوگ اس کاروبار کو خیر آباد کہہ کر چھوڑتے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر سال اگست، ستمبر سے ان کا سیزن شروع ہو کر وہ خریداری شروع کرتے ہیں لیکن اس سال مارکیٹ کی خراب صورتحال اور مہنگائی کے باعث بالکل سناٹا ہے جبکہ خریدار بھی خشک میوہ جات کی خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

صدر کا مزید کہنا ہے کہ ایک زمانے میں پشاور میں مختلف ڈرائی فروٹس کی قیمتیں بہت مناسب تھی. صرف اگر موم پلی و چنا کی بات کی جائے تو 120 تا 150 کے درمیان فی کلو کی قیمت والی موم پلی و چنا آج کل فی کلو 350 یا اس سے زائد کی قیمت پر مل رہا ہے۔ وہ ایک زمانہ تھا جب پشاور سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے علاوہ لاہور، فیصل آباد یا پنجاب کے دیگر شہروں کو بھی ڈرائی فروٹس سپلائی کیا جاتا تھا۔ اسی طرح شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کیلئے بھی لوگ ڈرائی فروٹس لیتے تھے لیکن گزشتہ دو سال کے دوران اس کاروبار پر کافی اثر پڑا ہے۔

پشاور کی مارکیٹوں میں اگر بعض ڈرائی فروٹس کی قیمتوں کو دیکھا جائے جیسے اعلی کوالٹی کے بادام 1600 سے 2000 تک روپے، دوسری کوالٹی کے بادام 1500 سے 1800 روپے کے درمیان، اخروٹ 400 روپے سے 1000 روپے تک، پستہ 2200 سے لیکر 3500 ہزار روپے فی کلو مقرر ہیں۔

اس حوالے سے ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کا گاہک کم ہو کر 15 سے 20 فیصد تک رہ گیا ہے وہ بھی صرف صاحب استطاعت لوگ اور خود کاروباری افراد بعض اوقات اپنے اہل خانہ کیلئے بھی ڈرائی فروٹس لے جاتے تھے لیکن ان حالات میں وہ بھی لے جانے سے قاصر ہو کر رہ گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جب کاروبار عروج پر تھا تو ایک دوکان میں 15 سے 20 تک سیلز مین کام کیا کرتے تھے لیکن اب ان کو فارغ کرکے اب سارا کام ان کو خود کرنا پڑ رہا ہے اور یوں ہی ہزاروں سیلز مین بھی بے روزگار ہو چکے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button