سکواش کھلاڑی نورینہ شمس کا سیلاب سے متاثرہ بیواؤں کے لئے گھر بنانے کا منصوبہ
افتخار خان
پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے ایک سال بعد بھی بے سروسامانی کی کیفیت سے دوچار خواتین کی بحالی کے لئے سکواش کی معروف خاتون کھلاڑی نورینہ شمس نے ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ منصوبے کے تحت ڈی آئی خان کے سیلاب سے متاثرہ بیواؤں کے گھر دوبارہ آباد کرنے کے لئے اسلام آباد میں تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔
گیلری 6 میں نمائش کے لئے معروف فوٹوگرافرز کامران احمد اور اسمار حسین کی تصاویر فروخت کی لئے رکھی گئی تھیں۔ ایونٹ کا اہتمام کرنے والی نورینہ شمس فاؤنڈیشن کے مطابق اس نمائش اور تصاویر کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ڈی آئی خان میں سیلاب سے متاثرہ بیواؤں کے لئے گھر بنائے جائیں گے۔
سکواش کھلاڑی اور فلاحی شخصیت نورینہ شمس کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے ایسی 11 بیواؤں کے لئے گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو سیلاب کے بعد سے ابھی تک بے گھر ہیں۔ ان میں 3 گھروں کی تعمیر کا وعدہ اخوت فاؤنڈیشن جبکہ مزید تین کا ایک اور فلاحی ادارے نے کیا ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے نورینہ شمس نے بتایا کہ ان کی فاؤنڈیشن نے سیلاب کے فوری بعد خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ڈی آئی خان میں فلاحی کاموں کا آغاز کر دیا تھا جس کے لئے کروڑوں روپے کے چندے جمع ہوئے تھے۔ ابھی ایک سال گزرنے کے بعد حال ہی میں ہم نے دوبارہ ان متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ وہاں حالات ویسے ہی ہیں جس طرح سال پہلے تھے۔ وہاں پر گھر ویسے ہی ٹوٹے پڑے ہیں، رابطہ پل ویسے ہی خراب ہیں اور متاثرین بالخصوص خواتین کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس پورے سال میں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سمیت کسی حکومتی ادارے نے ان متاثرین کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
سیلاب سے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی متعدد اضلاع متاثر ہوئے تھے جن میں ڈی آئی خان اور ٹانک کے اضلاع زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں شامل ہیں۔ سیلاب کے بعد ڈی آئی خان ڈویژن کے کمشنر کی جانب سے صوبائی حکومت کو جمع کی گئی رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب کی وجہ سے دونوں اضلاع میں 20 اموات ہوئی تھیں جبکہ 85 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ سیلاب سے ڈی آئی خان میں 236 جبکہ ٹانک میں 70 گاؤں متاثر ہوئے تھے اور مجموعی طور پر 3900 گھروں نقصان پہنچا تھا۔ ڈویژن کو مجموعی طور پر پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 10 ارب روپے تک لگایا گیا تھا۔
اگست 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا اور 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔
یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے اہم انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا تھا یا مکمل تباہ ہو گیا تھا۔ ان میں 30 ہزار اسکول، 2 ہزار صحت کے مراکز اور پانی کی فراہمی کی 4300 سہولیات شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفت نے متاثرہ اضلاع میں بچوں اور خاندانوں کو پہلے سے درپیش عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایک تہائی بچے سیلاب آنے سے پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے۔ غذائی قلت ہنگامی سطح تک پہنچ چکی تھی اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات تک رسائی تشویش ناک حد تک محدود تھی۔
نورینہ شمس نے یونیسیف رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ آفات میں مرد کے مقابلے خواتین اور بچے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ماہواری کے دنوں میں خواتین کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں پیڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار لیڈی ہیلتھ ورکزر کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن رسائی نہیں ہو پاتی۔ وہاں پر واش رومز نہیں دستیاب۔ ان موضوعات اور مسائل پر چونکہ ہمارے معاشرے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ مسائل سامنے نہیں آتے۔ ہم نے دیکھا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ان مسائل کی وجہ سے کئی خواتین کو انفکشن ہوا ہے اور کئی حاملہ خواتین کے بچے ضائع ہو چکے ہیں۔ سرکاری و غیرسرکاری اداروں کو متاثرین کی امداد کے وقت ان تمام باتوں اور ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے۔
ڈی آئی خان کے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے "فریم دی ہوپس” نامی اس نمائش میں معروف سائیکلسٹ اور فوٹوگرافر کامران احمد اور اسمار حسین کی تصاویر رکھی گئی تھیں۔
کامران احمد نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں ڈی آئی خان کے رہائشی اپنے ساتھی اسمار حسین کی دعوت پر سیلاب متاثرین کا دورہ کیا تو وہاں کے حالات دیکھ کر انہیں انتہائی افسوس ہوا۔ وہاں پر ہم دونوں ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے کرئیر کی سب سے بہترین اور جو ہمارے دلوں کے سب سے نزدیک ہیں، وہ تصاویر پرنٹ کر کے نمائش اور فروخت کے لئے رکھیں گے۔ ان تصاویر کی فروخت سے جتنی بھی آمدنی ہو گی اس سے نورینہ شمس فاؤنڈیشن اور اخوت فاؤنڈیشن بیواؤں کے لئے چھت بنائیں گی۔ یہی ہمارا ایمان ہے کہ جتنا ہم سے ہو سکتا ہے ان متاثرین کے لئے اقدام اٹھائیں۔
اسمار حسین پچھلے ایک سال سے ان متاثرین کی بحالی کے سلسلے میں رضاکاروں کی ایک ٹیم کے ساتھ تگ و دو میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نمائش سے انہیں توقع سے زیادہ اچھا رسپانس ملا اور کئی تصاویر فروخت ہو گئی ہیں۔ اگر اس نمائش میں تمام تصاویر فروخت نہ ہوئیں تو کسی دوسری جگہ ایک اور ایونٹ بھی منعقد کریں گے لیکن سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
نورینہ شمس نے بتایا کہ انہوں نے اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں لیکن دوسرے لوگوں کو بھی اس ضمن میں آگے آنا ہو گا۔ ان کے گھر بنانے کا یہ منصوبہ دوسرے فلاحی لوگ سوات اور بحرین میں بھی نافذ کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ پچھلے ایک سال سے بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ گرمی کی وجہ سے ان کے بچے کھانا نہیں کھاتے۔ جب تک حکمران ہیلی کاپٹروں پر سیلاب زدہ علاقوں کی سیر کی بجائے خود سیلاب زدگان کے بیچ نہیں چلے جاتے، ان کی حالت زار نہیں دیکھتے، ان کے مسائل خود دیکھتے اور سنتے نہیں تب تک انہیں ان تکالیف کا احساس نہیں ہو گا۔