لائف سٹائل

خیبرپختونخوا میں پانچ سو سے زائد بھٹہ خشت کارخانے بند

آفتاب مہمند

خیبر پختونخوا میں بھٹہ خشت کے 1200 سے زائد کارخانے چل رہے تھے جسمیں اب نصف کے قریب کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ ان کارخانوں کی بندش کیوجہ کوئلے اور اینٹ میں استعمال ہونے والے مٹیریل یعنی مٹی، بجری، کرش وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔

آل خیبر پختونخوا بھٹہ خشت ایسوسی ایشن کے صدر حاجی حامد فواد نے بات چیت کرتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے بھٹہ کارخانوں میں افغانستان اور انڈونیشیا کا درآمد ہونے والا کوئلہ استعمال ہوتا تھا کیونکہ یہ معیاری تھا اور قیمتیں بھی مناسب تھیں لیکن وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وہاں سے کوئلے کی درآمد پر پابندی عائد کردی جس کے بعد بھٹہ مالکان سندھ سے کوئلہ منگوانے پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کا کوئلہ مہنگا ہونے کے باعث وہ اب کم مقدار میں منگواتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھٹوں میں اب پہلے کی بنسبت کم مقدار میں اینٹیں بنائی جاتی ہیں۔ ایک کارخانے میں 500 سے 550 تک مزدور و دیگر افراد کام کرتے ہیں۔ کم مقدار میں اینٹ بنانے کی وجہ سے ہر کارخانے کو آدھے سے زائد مزدوروں کو فارغ کرنا پڑا جس کے باعث سینکڑوں افراد بے روز گار ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ان کارخانوں میں بجلی یا گیس کے استعمال کا تعلق ہے تو بجلی اور گیس انکو کافی مہنگا پڑتا ہے لہذا بھٹہ مالکان اسلئے کوئلہ سے کام چلاتے ہیں اور ایسا ممکن نہیں کہ بجلی، گیس اور کوئلہ کو بیک وقت استعمال کیا جائے۔ کئی مالکان نے اپنی مدد آپ کے تحت سولرائیزیشن کا انتظام تو کیا ہوا ہے لیکن سولر سسٹم پر ہر وقت ایک کارخانہ چلانا اتنا آسان نہیں۔ حکومت اگر سبسڈی یا ارزاں نرخوں پر انکو بجلی یا گیس فراہم کرتی ہے تو وہ اس فیصلے کو خوش آمدید کہیں گے۔

آل خیبر پختونخوا بھٹہ خشت ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی آئین خان کہتے ہیں کہ بھٹہ کے تمام کارخانے رجسٹرڈ ہیں اور ہر کارخانہ محکمہ انکم ٹیکس کو سالانہ 25 ہزار روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور محکمہ ماحولیات اس بات پر چھاپے مارتے ہیں کہ بھٹہ خشت صنعت سے مسلسل دھواں خارج ہوتا ہے اور فضائی آلودگی کا باعث بن کر ماحول کو خراب کر رہا ہے۔ اس بہانے کارخانوں پر روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مارنا انکو کسی بھی صورت قبول نہیں اور یہ کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن انکو بے جا نہ تنگ کیا جائے۔

آئین خان کہتے ہیں کہ وقتا فوقتاً مزدوروں کا معاوضہ بڑھانا، مشینری کا مسلسل مہنگا ہونا، اینٹ میں استعمال ہونے والا مٹی و بجری یا کرش کی قیمتیں بڑھ جانا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے کرایوں نے بھٹہ مالکان کو کاروبار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مالکان اینٹ کی قیمت بڑھانے کی بجائے اپنا کاروبار ختم کرنے کو ترجیح دیتے آرہے ہیں۔ اینٹ کی قیمتیں چونکہ پہلے سے زیادہ ہیں لہذا مزید بڑھانے کی صورت میں کوئی بھی شخص آبادی کیلئے اینٹ نہیں لے سکے گا۔

ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اور بھٹہ مالک میر رحمان نے ٹی این این کو بتایا کہ آجکل کے دور میں بھٹہ کے ایک کارخانہ لگانے پر دو کروڑ روپے تک خرچہ آتا ہے۔ اتنا پیسہ انویسٹ کرکے ماہانہ نقصان کرنے سے تو کاروبار چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ پہلے تو پھر بھی ایک کارخانہ دار کو ماہانہ تین لاکھ یا اس سے زائد روپے کا فائدہ ہوتا تھا لیکن اب نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے گزشتہ پانچ سے دس سال کے دوران خیبر پختونخوا میں 500 سے 550 تک کارخانے بند ہوئے جس سے نہ صرف بھٹہ خشت مالکان متاثر ہوئے بلکہ 30 ہزار سے زائد مزدور و دیگر طبقہ بھی بے روزگار ہو چکا ہے۔

ایک وقت تھا کہ دبئی، لندن جیسے ممالک سے لوگ اینٹ لینے یہاں آیا کرتے تھے لیکن مہنگائی کے باعث اب اپنے ہی صوبے و ملک کے لوگ اینٹ لگانے کی بجائے بلاک کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جس بھی شخص کی اینٹ لینے کی قوت خرید ہوگی وہ کبھی بھی بلاک لگانے کو ترجیح نہیں دے گا۔ اینٹ سے کیجانے والی آبادی زیادہ عرصہ تک چلتی ہے تاہم بلاک سے تعمیر ہونے والی آبادی قطعا پائیدار نہیں ہوتی۔ میر رحمان کہتے ہیں کہ فی الحال تو بھٹہ کارخانہ دار اپنی مدد آپ کے تحت حالات کا مقابلہ کرکے باقی ماندہ صنعت و کاروبار بچانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اگر انکو حکومتی سپورٹ نہیں ملی تو رفتہ رفتہ مزید کارخانے بھی بند ہو کر اور بھی لوگ بے روزگار ہوتے جائیں گے اور مالکان کا انویسٹ کیا گیا کروڑوں کا سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button