پشاور: ‘کم اجرت کے باعث محنت کش گدا گری کی جانب راغب ہورہے ہیں’
آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا میں مزدوروں کی کم سے کم ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کے باوجود دو ماہ بعد بھی اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس کے باعث مزدور تنظیموں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔
پشاور میں محنت مزدوری کرنے والے محنت کش بلال نے ٹی این این کو بتایا کہ ایک طرف کم اجرت اور دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی نے دیہاڑی دار مزدوں کی کمر توڑ دی ہے، بے روزگاری اور کم اجرت کی وجہ سے اکثر محنت کش یا تو گدا گری کی جانب راغب ہورہے ہیں یا پھر راہزنی، چوری اور ڈکیتی جیسے واردت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ کئی محنت کش بے روزگاری اور غریت کی وجہ نشے میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
بلال کا کہنا ہے کہ مزدوروں کی ماہانہ کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ غریب محنت کش مہنگائی کے اس دور میں کچھ حد تک اپنی ضروریات کو پورا کرسکے۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین رازم خان کے مطابق رواں سال 20 جون کو سابق صوبائی نگران کابینہ نے 4 ماہ کا بجٹ پیش کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں مزدوروں کا کم سے کم ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے مقرر کا اعلان کیا تھا، جولائی میں ویج بورڈ نے ایک میٹینگ کے دوران اس کی منظوری دی جبکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ نے ایک سمری تیار کرکے نگران حکومت کو بجھوائی تھی جو کہ اس وقت وزیراعلیٰ ہاوس میں پڑ کر نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا کی منظوری کی منتظر ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رازم خان نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سمری تو تیزی کے ساتھ منظور ہوئی تھی لیکن مزدوروں کو ریلیف دینے کیلئے سمری تاحال منظور نہیں ہوئی جو ان کی حق تلفی ہے۔
رازم خان نے بتایا کہ مزدوروں کی ماہانہ اجرت بڑھانے کی سمری کو فوری طور پر منظور کرکے انہیں ریلیف دیا جائے تاکہ پاکستان ورکرز فیڈریشن کو مزدوروں کے حقوق کے لئے احتجاج کرنے کی نوبت نہ آئے، منظوری کے ساتھ ساتھ اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان کے بقول ملک بھر میں رسمی ( آرگنائیزڈ سیکٹر لیبرز) یعنی کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور غیر رسمی (نان آرگنائیزڈ سیکٹر لیبرز) جو بازاروں یا گھروں وغیرہ میں محنت مزدوری کرتے ہیں، کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہمارے صوبے میں اکثریتی مزدوروں کو سابقہ ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے بھی نہیں مل رہے۔