خیبر پختونخوا میں گرمی کی ایک اور لہر، پچھلی لہر کے اموات تاحال معمہ
افتخار خان
صوبے کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی شعبے کے قلیل المدتی قیام کے یونٹ میں مجموعی طور پر 11 بیڈز ہیں لیکن وارڈ میں اس وقت مریضوں کی تعداد 40 سے بھی زیادہ ہے۔ ہر بیڈ پر 2 یا تین مریض لیٹے ہیں جبکہ تیمارداروں کے لئے رکھے گئے سٹینڈز پر بھی مریضوں کو لٹا اور بٹھا کر ان کا علاج معالجہ جاری ہے۔ ان میں اکثریت ہیٹ ویو یا گرمی کی لو سے متاثر ہونے والے مریض ہیں جن کو ڈرپس لگائے گئے ہیں۔
ان میں 25 سالہ مریض امان اللہ کو نہ بیڈ پر جگہ ملی ہے اور نہ ہی سٹینڈ پر، اسے کھڑے کھڑے ہی ڈرپ چڑھایا جا رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ آنے والے دوست سے محو گفتگو ہے۔ میں نے ان کی گفتگو میں خلل ڈال کر اس کی صحت دریافت کی تو بتایا کہ پچھلے تین دن سے گرمی کی وجہ سے اس کا برا حال تھا۔ امان اللہ پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں باورچی کا کام کرتا ہے۔ دن میں 6 سے 8 گھنٹوں تک آگ کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ دو دن پہلے سر اور آنکھوں میں درد شروع ہوا۔ کل صبح سے پیٹ بھی خراب ہوا اور دیگر علامات بھی شدید تر ہوتی گئیں تو مجبوراؑ ہسپتال آنا پڑا۔
امان اللہ کے ساتھ بیڈ پر بیٹھا نوجوان احمد بھی گرمی کی لو کی وجہ سے نڈھال تھا۔ 22 سالہ احمد گاڑیوں کا مکینک ہے اور زیادہ تر دھوپ میں کام کرتا ہے۔ دوپہر کو اچانک چکر اور متلی آنے کے بعد اسے ہسپتال پہنچایا گیا۔
22 اگست کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ میں جب یہ صورتحال تھی تو باہر درجہ حرارت 40 درجہ سینٹی گریڈ کو پہنچ چکا تھا۔ ہوا میں نمی زیادہ ہونے کی وجہ سے انسانی جسم کو اس کا احساس 47-48 ڈگری سینٹی گریڈ ہو رہا تھا۔ اس دن صوبے میں سب سے زیادہ درجہ حرارت بنوں میں 43 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق پچھلے چار پانچ دنوں سے پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام میدانی علاقوں میں ایک بار پھر گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق منگل کے روز پشاور کی آب و ہوا میں نمی کا تناسب 60 فیصد سے اوپر تھا جس سے گرمی کی شدت کا احساس مزید بڑھتا ہے۔
صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک ہفتے سے گرمی یا لو سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور روزانہ کئی درجن ایسے افراد ایمرجنسی اور کیجولٹی کا رخ کرتے ہیں جن کی حالت گرمی کی وجہ سے خراب ہو چکی ہوتی ہے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے سخت متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ان اثرات میں اگر ایک جانب سیلابی صورتحال، گلیشیئرز کا پگھلنا، بے ترتیب بارشیں اور خشک سالی ہے تو دوسری جانب ہر سال ہیٹ ویوو کے اثرات بھی بڑھتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دو ماہ پہلے اپنی ایک رپورٹ میں عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ پاکستان کو سخت ہیٹ ویوو سے بچانے کے لئے بڑی سطح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
برننگ ایمرجنسی: ایکسٹریم ہیٹ ویو اینڈ رائٹ ٹو دی ہیلتھ اِن پاکستان نامی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام سخت گرمی سے خود کو بچانے کے لئے سہولیات سے محروم ہیں۔ زراعت، خشت بھٹیوں اور کھلے آسمان کے نیچے محنت مزدوری کرنے والے افراد ہیٹ ویوو سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 4 کروڑ لوگ بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ انہیں یا تو بجلی فراہم ہی نہیں کی گئی ہے اور یا وہ غربت کی وجہ سے خود کو گرمی سے محفوظ رکھنے کے لئے پنکھے اور ائیر کنڈیشنز چلانے سے قاصر ہیں اور نہ ہی سولر پینلز لگا سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امیر اور ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کی کہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کریں اور پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار اور معاشی طور پر کمزور ممالک کے ساتھ اس ضمن میں مالی تعاون بھی کریں تاکہ وہاں ماحولیاتی تبدیلی سے نبردآزما ہونے کے لئے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے میڈیکل وارڈ کے انچارج ڈاکٹر عطا محمد نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ کی تائید کی اور بتایا کہ ہیٹ ویو سے زیادہ تر معاشی طور پر پسا ہوا طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ ہسپتال لائے جانے والے زیادہ تر مریض وہ لوگ ہوتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے محنت مزدوری کرتے ہیں یا بجلی جیسی انتہائی ضروری آسائش سے بھی دور ہوتے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عطا محمد نے بتایا کہ گرمی کی لو سے ویسے تو ہر جنس اور عمر کے افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن زیادہ اثر بوڑھوں، بچوں، حاملہ خواتین اور پہلے سے مختلف بیماریوں کے شکار افراد پر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ گرمی سے متاثر ہونے والے افراد پر تین قسم کے اثرات ہوتے ہیں.
1۔ ہیٹ کریمپس: اس کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ گرمی سے متاثر فرد کے جسم کے مختلف حصوں میں درد ہوتا ہے۔
2۔ ہیٹ ایگزاسشن: اس میں زیادہ پسینہ بہنے سے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ انہیں سر چکرانے، متلی اور دست کی شکایات بھی پیش ہو سکتی ہیں۔ ایسے مریضوں کو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔
3۔ ہیٹ سٹروک: اس حالت میں انسانی جسم اپنا اندرونی درجہ حرارت کم نہیں کر پاتا اور مریض کو سنگین قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
گرمی میں انسانی جسم اپنا 36 اعشاریہ 5 سے لے کر 37 درجہ سینٹی گریڈ کی درجہ حرارت برقرار رکھنے کیلئے پسینہ بہاتا ہے لیکن زیادہ گرمی کی وجہ سے جب بدن میں پسینہ بھی ختم ہو جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں جسم اپنی کولنگ سسٹم میں ناکام ہو جاتا ہے اور باہر کے درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ جسم کے اندر کا درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو بے ہوشی، نیم بے ہوشی کی کیفیت، فشار خون انتہائی کم ہونا، قے اور دست کا آنا اور اعصابی نظام کمزور پڑنے جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے علاج کے لئے اسے ہسپتال میں داخل کرانا لازمی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عطا محمد نے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ہر سال اس موسم میں گرمی کی شدت سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا کرہ پہلے کی نسبت اب بہت گرم ہو چکا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے پوری دنیا متاثر ہے لیکن اس کے اثرات ہمارے جیسے غریب اقوام کو زیادہ بھگتنے پڑتے ہیں۔
رواں موسم گرما میں ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کئی ہیٹ ویوز چلے ہیں جن میں سب سے خطرناک 20 جون سے 26 جون تک ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس ہفتے میں محکمہ موسمیات کے ڈیٹا کے مطابق میدانی علاقوں کا درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی اسسٹنٹ میڈیا منیجر ناہید جہانگیر کا کہنا تھا کہ حالیہ ہیٹ ویو میں حالات قابو میں ہیں اور ہسپتال لائے جانے والے مریضوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ ناہید جہانگیر نے بھی 24 اور 25 جون کی ہیٹ ویو کو اپنی زندگی کی خطرناک ترین گرمی قرار دیا اور بتایا کہ ان دو تین دنوں میں گرمی سے متاثرہ سینکڑوں مریض ہسپتال لائے گئے تھے جن میں 60 کو طبیعت زیادہ بگڑنے پر آئی سی یو اور دیگر وارڈز میں داخل کروایا گیا تھا۔
اسسٹنٹ میڈیا منیجر کے مطابق ان دو دنوں میں ہسپتال میں داخل ہیٹ سٹروک سے متاثرہ 6 افراد کی اموات بھی واقع ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوں کو ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق زیادہ سے زیادہ ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے لئے انتہائی نگہداشت یونٹ میں برف کے بڑے بڑے بلاکس رکھے جاتے ہیں: "اس وقت ایسی بھی حالت آئی کہ مارکیٹ سے برف نہیں مل رہا تھا پھر ہم نے اعلانات کئے کہ جن کے پاس ہو وہ مہربانی کر کے ہسپتال پہنچا دیں۔”
جون کے مہینے میں مذکورہ ہیٹ ویو سے صوبے کے دیگر ہسپتال بھی ایسے مریضوں سے بھرے پڑے تھے۔ محکمہ صحت کے مستند زرائع کے مطابق جون کے ہیٹ ویوو میں مردان میڈیکل کمپلکس میں 18 اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 26 اموات ہوئی تھیں لیکن حکومت کی جانب سے یہ خبر چھپائی گئی تھی۔ مردان میڈیکل کمپلکس کی انتظامیہ کی جانب سے اموات کی تصدیق کے بعد میڈیا پر یہ خبر نشر بھی ہوئی تاہم بعد میں ہسپتال انتظامیہ نے خبر کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔