چیئر لفٹ کے لیے زائد المیعاد رسی کا استعمال اور ریسکیو کے لیے روایتی انداز
محمد فہیم
خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقے بٹگرام کی تحصیل الائی میں کل صبح ساڑھے 7 بجے بچوں کو سکول لے جانے والی چیئر لفٹ حادثے کا شکار ہوگئی اور اس کی تین میں سے دو رسیاں ٹوٹ گئیں۔ اس حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیدیا جن کے جوابات مستقبل میں ان واقعات کی روک تھام کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
بٹگرام میں 15 گھنٹے تک لٹکی چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو نکالنے کیلئے دیسی طریقہ ہی کام آیا۔ شانگلہ سے آنے والی مقامی افراد پر مشتمل دو ٹیموں نے شام ڈھلنے کے بعد آپریشن کرتے ہوئے بیشتر بچوں کو ریسکیو کرلیا۔ مقامی آبادی کے مطابق ماضی میں بھی چیئر لفٹ کی رسی ٹوٹنے کے واقعات اکثر پیش آئے ہیں جس کے بعد چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو بچانے کیلئے شانگلہ اور دیگر قریبی اضلاع سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے۔ چیئر لفٹ کو چار رسیوں کی مدد سے باندھا جاتا ہے جس میں تین رسیاں چیئر مین لفٹ کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں جبکہ ایک رسی چیئر لفٹ کے ساتھ ہوتی ہے تاہم یہ استعمال نہیں ہوتی۔ الائی بٹگرام میں جو چیئرلفٹ کا واقعہ پیش آیا اس میں چیئر لفٹ کی تین میں سے دو رسیاں ٹوٹ گئیں تھیں اور ایک رسی پر چیئر لفٹ لٹک گئی تھی اس کے بعد جو رسی استعمال میں نہیں تھی مقامی افراد اسی کی مدد سے ریسکیو کرتے ہیں۔
عینی شاہد حسین احمد نے بتایا کہ پہلے ضلعی انتظامیہ بعد ازاں گورنر ہیلی کی ریسکیو ٹیم اور اس کے بعد پاک آرمی کی ٹیم نے مقامی افراد کو رسک لینے سے روک دیا تھا اور خود آپریشن کیا، شام ڈھلنے تک تین ناکام آپریشن کے بعد چوتھی کوشش میں پاک فوج کے جوانوں نے دو بچوں کو ریسکیو کرلیا تاہم اس کے بعد اندھیرا چھا گیا اور ہیلی کو وہاں سے ہٹا لیا گیا۔ حسین احمد کے مطابق اس کے بعد شانگلہ سے آئے نوجوانوں نے روایتی آپریشن شروع کیا اور جو چوتھی رسی چیئر لفٹ کے ساتھ باندھی جاتی ہے اس پر اپنی ڈولی لے جا کر ایک ایک کرکے بچوں کو نکالنا شروع کردیا اس آپریشن کے چند گھنٹوں بعد ہی تمام افراد کو بحفاظت بچا لیا گیا۔
دوسری جانب بٹگرام کی تحصیل الائی میں چیئر لفٹ حادثے نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ ضلع میں نصب بیشتر چیئر لفٹ زائد المیعاد ہیں اور ان کی جانچ کیلئے کوئی طریقہ کار بھی موجود نہیں ہے۔ مقامی صحافی عطاءاللہ نسیم نے بتایا کہ بٹگرام سمیت تورغر، کوہستان اور کولائی پالس اور دیگر بالائی اضلاع میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے شہری ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک سفر کرنے کیلئے چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہیں تاہم چیئر لفٹ ٹوٹنے کے حادثات معمول ہیں جن میں بیشتر شہری جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز بٹگرام کی تحصیل الائی میں چیئر لفٹ ٹوٹنے اور اس میں بچوں کے پھنسنے کا واقعہ ملک بھر کی میڈیا پر چھایا رہا جس کے بعد ان چیئر لفٹ کے معیار پر سوال اٹھ گئے ہیں۔
عطاءاللہ نسیم کے مطابق تورغر میں 40 سے زائد چیئر لفٹ ہیں تاہم ان چیئر لفٹ کیلئے جو رسی استعمال کی جاتی ہے وہ زائد المعیاد ہوتی ہے۔ ان رسیوں کو پہلے نتھیا گلی، ایوبیہ اور مری میں استعمال کیا جاتا ہے وہاں پر قانون اور انتظامیہ کی سختی کی وجہ سے اسے اپنی مدت مکمل ہونے پر تبدیل کردیا جاتا ہے جس کے بعد اسے تورغر، بٹگرام، کوہستان ، کولائی پالس اور دیگر دور دراز علاقوں میں لگایا جاتا ہے جہاں انتظامیہ سختی نہیں کرتی، اس اقدام سے ہزاروں شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
چیئر لفٹ کی تنصیب کی اجازت ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دی جاتی ہے اور وہی اس چیئر لفٹ کی جانچ کے بھی ذمہ دار ہیں تاہم مقامی آبادی کے مطابق چیئر لفٹ کی حالت کی جانچ کیلئے کبھی کبھار ہی ضلعی انتظامیہ دورہ کرتی ہے۔