خیبر پختونخوا میں ‘جعلی ٹورز آپریٹرز’ کی بھرمار، کس پر بھروسہ کیا جائے؟
اے وسیم خٹک
پاکستان کے شاندار شمالی علاقوں کا سفر شروع کرنا اعجاز (فرضی نام) اور ان کے خاندان کے لیے ایک خواب تھا۔ مہینوں کی تلاش کے بعد اعجاز نے سوشل میڈیا پر ایک ٹور کمپنی کی طرف سے ایک دلکش اشتہار کو دیکھا۔ اس سے قبل اعجاز کی بیوی روزانہ اسے اشتہارات بجھواتی تھی مگر اس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی مگر اس دن اشتہار ایک پرفیشنل طریقے سے ڈیزائن کیا گیا تھا جس سے اعجاز کو لگا کہ یہ کپمنی رجسٹرڈ ہے۔ اس نے پہلی فرصت میں اسے کال ملائی جواب میں ایک بارعب سی آواز کے ساتھ اس کا سامنا ہوا۔ تفصیل میں اسے ہر طرح کی آسائش کے بارے میں بتایا گیا، خاص کر انہیں فوڈ اور کمروں کے بارے میں زیادہ پریشانی تھی مگر ٹور آپریٹر کی باتوں سے وہ مطمئن ہوگیا اور وہ اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہی ٹور کیا جائے گا اور پھر کچھ رقم ایڈوانس میں اسے بھیج دی گئی۔
گھر میں ایک جوش کے ساتھ فیملی ممبران کو اگاہ کیا اور وہ سات لوگ فیملی ٹور کے لئے تیار ہوگئے۔ لاہور سے روانہ ہوتے ہوئے، خاندان کی توقعات بڑھ گئیں جب وہ دلکش شمالی مناظر کے قریب پہنچے تاہم ان کی آمد پر ان کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ ٹور کمپنی کی طرف سے کیے گئے وعدے کھو کھلے ثابت ہوئے، کیونکہ کھانا، کمرے اور مجموعی تجربہ توقعات سے بہت کم تھا۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے، ٹور گائیڈز میں بنیادی آداب کا فقدان تھا، ساتھی مسافروں کے ساتھ بے عزتی کا برتاؤ کرتے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ یہ ٹور کمپنی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اس آزمائش کے لیے مدد یا حل طلب کرنے کے لیے بے اختیار ہو گئے جو انہوں نے برداشت کیے تھے۔
اعجاز کا کہنا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی لاتعداد کوششوں کے باوجود وہ پورے سفر میں ذہنی اذیت میں مبتلا رہے، گھر واپس آتے ہی انہوں نے اپنی احتیاطی کہانی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا عہد کیا، دوسروں کو ٹور کمپنی کا انتخاب کرتے وقت محتاط رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے، ان پر زور دیا کہ وہ نامور اور سرٹیفائیڈ آپریٹرز کا انتخاب کریں تاکہ ناقابل فراموش سفر کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ کہانی ایک اعجاز کی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کی ہے جو موسم گرما میں ان ‘غیر رجسٹرڈ ٹورزکمپنی’ کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں اور اپنے سالوں سے تیاری کردہ ٹور کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں کام کرنے والی غیر قانونی سیاحتی کمپنیاں ممکنہ صارفین کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے فریب کاری کے حربے استعمال کرتی ہیں۔ وہ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے غیر معمولی خدمات، آرام دہ رہائش، اور یادگار تجربات کے دلکش وعدے کرتے ہیں تاہم ایک بار جب وہ اپنے متاثرین کا اعتماد جیت لیتے ہیں، تو حقیقت بالکل مختلف انداز میں سامنے آتی ہے۔
اپنی منزل پہنچنے پر سیاح اپنے آپ کو غیر معیاری اور سستے ہوٹلوں میں پاتے ہیں، جس سہولت کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ انہیں نہیں ملتا۔ فراہم کردہ کھانا اکثر ناقابل خوردنی معیار حامل نہیں ہوتا جس سے زائرین غیر مطمئن اور صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے غیر اخلاقی عمل خطے میں سیاحت کی پوری صنعت کی ساکھ کو داغدار کرتے ہیں اور زائرین کے ذہنوں پر منفی تاثر چھوڑ دیتا ہے۔
ہر سال ہزاروں لوگ قدرتی حسن سے مالا مال صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں کا وزٹ کرتے ہیں جس میں اکثر لوگ غیر قانونی سیاحتی کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کر لیتے ہیں جن کو وہ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں، اور ان سے متاثر ہوکر رابطہ کرلیتے ہیں۔ ملک بھر میں ہر سال موسم گرما کے شروع ہونے کے ساتھ ہی مختلف ٹوورز کمپنی کام شروع کردیتے ہیں جن کا کام صرف خود سیاحت کرنا ہوتا ہے اور باقی لوگوں سے پیسے لے کر ٹور پلان کرلیتے ہیں اور وہاں جاکر باقی لوگوں کو پوچھتے تک نہیں جو ان کے ساتھ آئے ہوتے ہیں یہ بے ضمیر ایجنسیاں لوگوں کو بہترین خدمات کے وعدوں سے لالچ دیتی ہیں لیکن دھوکے اور استحصال سے کم نہیں ہوتیں۔ یہ فراڈ کی شکل میں معصوم مسافرین کو دھوکہ دیتے ہیں جو اچھی خدمات کا وعدہ کرکے ان کے شکار ہو جاتے ہیں۔
استحصال کا ایک پریشان کن پہلو بلیک میلنگ کے رپورٹ ہونے والے واقعات ہیں۔ بے ایمان ایجنسیاں غیر اخلاقی طریقوں کا سہارا لیتی ہیں، جیسے کہ جوڑوں کے سفر کے دوران ان کی تصاویر لینا، بعد میں وہ ان تصاویر کو سیاحوں، خاص طور پر غیر شادی شدہ جوڑوں کو زبردستی اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تاکہ ان تصویروں کی ریلیز کو روکنے کے لیے بھاری رقم ادا کی جائے۔ مناسب دستاویزات کی کمی یا ازدواجی حیثیت کا ریکارڈ رکھنا ان سیاحوں کو خاص طور پر اس طرح کی بلیک میلنگ کا شکار بناتا ہے۔ یہ استحصالی رویہ نہ صرف سیاحوں کی رازداری اور وقار کی خلاف ورزی کرتا ہے جس سے سیاحت کے شعبے اور مقامی معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں غیر قانونی اور مشروم جیسی سیاحتی ایجنسیوں کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ حکومت کی جانب سے فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔ حکام کو ان دھوکہ دہی کے کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور سیاحوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ پہلے ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز تھا، جو کچھ عرصہ پہلے ہی ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ضم ہوا ہے، کو اس وقت یہ مسائل بہت زیادہ تھے مگر اب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے زیر نگرانی آنے کے بعد تھوڑی سے بہتری آئی ہے اور وہ پرانے کیسز اور مسائل ختم کئے جا رہے ہیں تاہم پھر بھی کہیں نہ کہیں پر مسائل ہیں جس کے لئے کام کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ کنٹرولر ثنااللہ کا کہا ہے کہ ہم ٹورز اپریٹرز کو رجسٹرڈ کرتے ہیں۔ ان کے آفس کا ریکارڈ اور این ٹی این سمیت سٹاف کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہوتا ہے ۔بنک اسٹیٹمنٹ بھی جمع کراتے ہیں جب کوئی ٹوراپریٹر ہمارے انسپکٹر کی نظر میں آجاتا ہے تو اس کے خلاف ثمن جاری کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر چوبیس سو کے قریب ٹورز کمپنیاں رجسٹرڈؑ ہیں جن میں ٹریول اور ٹورز دونوں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے بھی ان کو نہیں چھوڑتی اگر وہ غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں، وہ سارا ریکارڈ چیک کرتے ہیں اگر ہم سے بچ جاتے ہیں تو اُن کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے خلاف شکایتیں آتی ہیں جن کے لئے ان کا اپنا ایک نظام ہے جس پرعمل کرتے ہیں۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ کمپنیوں کے خلاف کیسز درج ہیں جن پر کاروائی کی جارہی ہے کیونکہ ہمیں اسٹیزن پورٹل پر بھی شکایات موصول ہوتی ہیں۔
ان سب مسائل کے باوجود کیونکہ خیبر پختونخوا سیاحت کے حوالے سے بہترین مقامات رکھتا ہے اور ہر سال ایک بڑی رقم مختلف مد میں ریونیو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے تو حکومت کو چند گزارشات کی جاتی ہے کہ وہ ان ٹورز اپریٹر کے خلاف کاروائی کریں حالانکہ حکومتی ذرائع کا موقف ہے کہ وہ رجسٹرڈ آپریٹر کو ہی مواقع فراہم کرتے ہیں مگر یہ تو صرف خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں باقی صوبوں کے بھی کمپنیاں کام کرتی ہیں جن میں زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی سیاحت کی جاتی ہے اور ان میں بہت سے غیر رجسٹرڈ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو بلیک میلنگ بھی کرتے ہیں۔ اگر ان کے ٹورزاپریٹر کے لئے ایک انسپکٹر لازمی ہو جو ان کے ساتھ ڈیوٹی سر انجام دے جو ان کے سب انتظامات دیکھے تو شاید ایسے مسائل سامنے نہ آئیں مگر اس کے لئے برے لیول پر قانون سازی کی ضرورت ہے دیگر کچھ مشورے بھی دیئے جا رہے ہیں جس پر عمل کرکے حکومت سیاحت کا دوام دے سکتی ہے۔
ضابطہ اور لائسنسنگ: حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاحت سے متعلق تمام کاروباروں کے لیے سخت ضابطوں اور لائسنسنگ کی ضروریات کو لاگو کرے، باقاعدگی سے معائنہ اور نگرانی غیر قانونی ایجنسیوں کی شناخت اور بند کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
آگاہی مہمات: ممکنہ سیاحوں کو غیر تصدیق شدہ ایجنسیوں کے استعمال کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی بیداری کی مہمات کا آغاز کرنا بہت ضروری ہے۔ معروف اور لائسنس یافتہ کمپنیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے مسافروں کو باخبر انتخاب کرنے کا اختیار ملے گا۔
وِسل بلوور ہاٹ لائن: سیاحوں کے لیے کسی بھی استحصالی عمل یا بلیک میل کی کوششوں کی اطلاع دینے کے لیے ایک وقف ہیلپ لائن قائم کرنا متاثرین کو آگے آنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت مداخلت کو یقینی بنانے کی ترغیب دے گا۔
تربیت اور سرٹیفیکیشن: حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹورازم آپریٹرز اور عملے کے لیے تربیتی پروگراموں میں بھی سرمایہ کاری کرے تاکہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور خدمات کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے، جس سے صنعت کا ایک مثبت امیج سامنے آئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانا: سیاحوں کو ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے یا استحصال کی کسی دوسری شکل سے بچانے کے لیے موجودہ قوانین کو نافذ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں