کیا واقعی رحمان ڈھیری کے لوگ ‘ظالم اور گناہوں’ میں مبتلا تھے؟
نثار بیٹنی
کیا واقعی رحمان ڈھیری (رام ڈھیری) ہندوؤں کے رام کرشن کی جائے پیدائش ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف تجزیہ کار اور ڈی آئی خان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ابوالمعظم ترابی نے بتایا کہ بعض ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق ڈی آئی خان میں موجود آثار رحمان ڈھیری ہی اصل میں رام کرشن کی جائے پیدائش ہے جبکہ بھارت میں کئی سال پہلے شہید کی جانے والی بابری مسجد رام کرشن کی جائے پیدائش نہیں ہے، کئی حوالے بھی بعض ہندو مورخ اسرار کرتے ہیں کہ دراصل رحمان ڈھیری (رام ڈھیری) ہی رام کرشن کی جنم بھومی ہے، ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق رحمان ڈھیری دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں ‘موہن جو داڑو’ اور ‘ہڑپہ’ سے بھی قبل کی تہذیب ہے۔
ماہرین کے مطابق موہن جو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیب تقریبا 4000 سے 4500 سال پرانی تہذیب ہے جبکہ رحمان ڈھیری(رام ڈھیری) کی تہذیب 6000 سے 6500 سال پرانی ہے، ان حقائق کو دیکھا جائے تو ثابت یوتا ہے کہ رحمان ڈھیری کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے اور موجودہ تاریخ تک رحمان ڈھیری سے پرانی تہذیب کے کوئی آثار نہیں ملتے لیکن جس طرح کئی ہزار سال تک رحمان ڈھیری کی سب سے پرانی تہذیب مٹی کے نیچھے دبی ہوئی تھی ممکن ہے مستقبل میں اس سے بھی پرانی تہذیب دریافت ہوجائے۔
رحمان ڈھیری صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی سرکل کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پشاور روڈ پر شہر سے تقریبا 20 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے، رحمان ڈھیری کا پرانا نام رام ڈھیری تھا جسے قیام پاکستان کے بعد تبدیل کرکے رحمان ڈھیری رکھ دیا گیا، تقریبا 6500 سال پرانی یہ تہذیب کئی اسراروں سے بھری ہوئی ہے، ہزاروں سال پرانی یہ تہذیب نجانے کتنے سال زمین کی تہہ میں وسیع تاریخ لیے دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی پھر سال 1970 میں محکمہ آثار قدیمہ پشاور نے یہاں کھدائی شروع کی تو کئی سربستہ راز کھلتے چلے گئے۔
ماہرین کے مطابق یہ تہذیب جنوبی ایشیاء کی سب سے قدیم تہذیب ہے چونکہ ہزاروں سال قبل انسانی تہذیبیں دریاوں کے کنارے پھلتی پھولتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں دنیا کی پرانی تہذیبیں دریائے دجلہ، دریائے فرات، دریائے نیل اور دریائے سندھ کے کنارے ملیں گی، پرانے وقتوں میں انسان کی بقاء انحصار پانی اور کھیتی باڑی پر تھا اور موجودہ دور کی سہولیات نا ہونے کے سبب انسان دریاوں کے اطراف میں بسیرا کرتا تھا اس کی ایک وجہ پانی فراوانی ہوتی جبکہ دوسری وجہ نرم اور زرخیز زمین ہوتی جس سے پھل، اناج اور سبزیاں حاصل کی جاتیں تھی، دریائے سندھ کے کنارے آباد رحمان ڈھیری بھی قدیم ترین تہذیب میں سے ایک ہے جسے بعض ماہرین موہن جو داڑو اور ہڑپہ سے بھی قدیم ترین تہذیب قرار دے رہے ہیں۔ ڈی آئی خان شہر سے پشاور روڈ پر جائیں تو تقریبا 20 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ قدیم آثار دیکھنے کو ملیں گے، کھدائی کے دوران یہاں بیش قیمت نوادرات ملے ہیں جن میں سونے اور چاندی کے زیورات، برتن، مٹی کے گھریلو استعمال کے برتن، انسانوں و جانوروں کی باقیات، پانی کے حصول کے لیے کھودے گئے کنویں، کچے لیکن نفیس مکانات کے کھنڈرات، مٹی کی گڑیاں اور نقش و نگار سے مزین مرتبان، سورائیاں اور مٹکے شامل ہیں، کھدائی کے بعد کثیر تعداد میں مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے بھی نکلے ہیں۔
کیا یہ علاقہ مٹی کے برتن بنانے والوں کا مسکن تھا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابوالمعظم ترابی نے بتایا کہ چونکہ اس علاقہ کی تہذیب ہزاروں سال قدیم ہے لیکن زمانے کے نشیب و فراز کا شکار ہوتا ہوا تہہ در تہہ مٹی کا لباس اوڑھتا رہا لہذا اب جب کھدائی کی گئی تو اس کے نتیجے میں زیر زمین موجود مٹی کی اشیاء ٹوٹ گئیں اور یوں اب یہ برتن ڈھیلوں کی شکل میں آپ کو ملیں گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ علاقہ مٹی کے برتن بنانے والوں کا رہا ہو یا یہاں مٹی کے برتن بنانے کے کارخانے بنائے گئے ہوں کیونکہ ہزاروں سال پہلے انسان کی روزمرہ کی استعمال کی اشیاء میں مٹی اور مٹی کے برتنوں کا سب سے زیادہ عمل دخل تھا اور لوہے، کانچ، سٹیل یا ایلومینیم کے استعمال کو یا تو ترجیح نہیں دی جاتی تھی یا پھر یہ لوگ ان اشیاء کے استعمال سے ناواقف تھے اور شاید بنانے پر قدرت بھی نہیں رکھتے تھے۔
رحمان ڈھیری کے بارے میں ایک مختلف اور نسبتا عجیب روایت بھی چلی آ رہی ہے، مقامی روایات کے مطابق ‘اس علاقہ کے لوگ نافرمان، ظالم اور گناہوں میں مبتلا تھے لہذا ان پر زمین الٹ دی گئی اور یہ لوگ اپنے خاندانوں، جانوروں اور سازوسامان سمیت زیرزمین دفن ہوگئے’، اس بارے میں ابوالمعظم ترابی نے بتایا کہ تصدیق شدہ اور تحقیق شدہ روایات میں یہ بات ثابت نہیں ہے، رحمان ڈھیری میں آباد یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار تھے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں اسی طرح اس علاقے کو ہندوؤں کے رام کرشن کی جائے پیدائش قرار دینے کے حوالے سے بھی کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس علاقے کا نام قیام پاکستان سے قبل رام ڈھیری تھا لیکن اس نام کی وجہ تسمیہ کسی حوالے سے ثابت نہیں کہ ہندوؤں نے اس علاقے کو یہ نام رام کرشن کی جائے پیدائش کی وجہ سے دیا گیا تھا۔
اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ٹاون ہال عجایب گھر ڈی آئی خان کے انچارج عالم خان نے بتایا کہ کھدائی کے نتیجے میں یہاں سے نایاب اور متروک اشیاء ضرور برآمد ہوئیں جن کو پشاور اور بنوں کے عجائب گھروں میں محفوظ کیا گیا ہے، ان تمام گزارشات سے ثابت ہوتا ہے کہ رحمان ڈھیری کی تہذیب برصغیر کی دیگر مقامی تہذیبوں سے کئی سو سال پرانی ہے لیکن ہزاروں سال پرانی اس تہذیب کے آثار، یہاں سے برآمد اشیاء اور معلومات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خطے کے یہ باسی اپنے وقت میں علم و فن سے خوب واقف تھے، ان کی بنائی اشیاء کی ساخت اور معیار سے ان کی نفاست اور کاریگری جھلک رہی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ رحمان ڈھیری کے باسی ہزاروں سال قبل بھی تہذیب و تمدن کا دامن پکڑے ہوئے تھے اور اپنے وقت کے مطابق بہترین لیکن جفاکش زندگی گزار رہے تھے، ان کا رہن سہن اور ثقافت واضع طور پر چغلی کھا رہے ہیں کہ سب سے اول انسانوں میں شمار یہ لوگ زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے ہوئے تھے اور وقت کی نبض محسوس کرکے آگے بڑھ رہے تھے، یہ طبعی موت مرے یا انہیں زمین نگل گئی یہ تو معلوم نہیں لیکن حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کو فنا ہے اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ کا حصہ بننا پسند کرتا ہے یا گمنام رہ کر آنے والوں کے لیے حیرت کا سامان پیدا کرتا ہے، رحمان ڈھیری دریافت ہوئی تب ہی دنیا پر منکشف ہوا کہ یہاں کبھی تہذیب یافتہ اور پیشہ ور لوگ رہتے تھے ورنہ رحمان ڈھیری جیسی سینکڑوں تہذیبیں شاید اب بھی زمین کی تہہ میں کسی کھدائی کا انتظار کر رہی ہیں۔