لائف سٹائل

باجوڑ میں غیر قانونی اسمگلنگ سے ہزاروں خاندان متاثر لیکن ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں

 

مصباح الدین اتمانی

باجوڑ کی تحصیل سلارزئی سے تعلق رکھنے والا 19 سالہ محمد عباس ستمبر 2020 میں ایک ایجنٹ کے ذریعے اپنے ہم عمر چچازاد بھائی سہیل خان کے ہمراہ اٹلی کے غیرقانونی سفر پر روانہ ہوا۔ انہوں نے دسمبر 2020 میں لیبیا پہنچ کر گھر والوں سے فون پر آخری رابطہ کیا جس کے بعد دونوں لاپتہ ہو گئے۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے گھر والے پچھلے تین سالوں سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن تاحال سب بے سود ہے۔

انٹرنیشنل سنٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ہزاروں پاکستانی نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے غیرقانونی راستے سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔ 2017 اور 2020 کے درمیان 21 ہزار 405 پاکستانی غیرقانونی راستے سے یورپی ممالک میں داخل ہوئے۔ پچھلی دہائی میں اٹلی ,پناہ کے طور پر پاکستانی متلاشیوں کے لیے یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں 1600 افراد انسانی اسمگلروں کے ذریعے غیرقانونی قانونی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں زندگی سے ہاتھ سے دھو بیٹھے ہیں یا پھر وہ لاپتہ ہو گئے ہیں۔

28 سالہ نجیب اللہ لاپتہ محمد عباس کا بڑا بھائی ہے۔ وہ باجوڑ کے ایک نجی بینک میں ملازمت کرتا ہے۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ میرے بھائی اور کزن کا ایک ایجنٹ کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ وہ پہلے ترکی اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچے جہاں ان کے ساتھ ایجنٹس کا رویہ بدلنا شروع ہوا۔ پہلے ان سے موبائل فونز چھینے گئے پھر وہ تین دن تک ان کو گھاس اور پتے کھلاتے رہے۔ ایجنٹس میرے بھائی اور کزن سمیت ان ہزاروں تارکین وطن پر تشدد  کرتے تھے جن کو یورپ کا خواب دکھا کر وہ دھوکے سے لے کر گئے تھے۔ نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ  25 دسمبر 2020 کو بھائی نے فون پر رابطہ کر کے بتایا کہ ‘ہم انتہائی مشکل میں ہیں۔ ایجنٹس آپ سے جو کہہ رہے ہیں آپ وہی کریں۔ یہاں ہمارے ساتھ بہت برا ہو رہا ہے۔ محفوظ مقام پر پہنچ کر آپ کو تفصیل سے آگاہ کروں گا۔’ "یہ ان کا ہمارے ساتھ آخری رابطہ تھا”، نجیب اللہ نے آہ بھرتے ہوئے بتایا۔

"جب میں نے ایجنٹ سے پوچھا تو اس نے یہ کہہ کر میری پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کہ وہ لیبیا میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ آپ ہمیں مزید 15 لاکھ روپے بھیج دیں ہم انہیں رہا کروا دیں گے لیکن تین سال گزرنے کے بعد بھی ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں آئی۔”

جب ہم نے نجیب اللہ سے پوچھا کہ گھر میں کیا صورتحال ہے تو اس نے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا: "وہ ناقابل بیان ہے۔ اللہ کسی کو ایسے دن نہ دکھائے! انسان مر جائے تو اللہ ورثاء کو صبر دے دیتا ہے لیکن لاپتہ ہونے کی صورت میں دل ہر لمحہ بے چین رہتا ہے۔” نجیب اللہ نے بتایا کہ ماں ان کو یاد کرتے کرتے بے ہوش ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایجنٹس غربت اور بے روزگاری سے تنگ بہتر مستقبل کے متلاشی نوجوانوں کو محض سبز باغ دکھاتے ہیں۔ وہ غیرقانونی راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کا جاں لیوا سفر اتنا آسان بنا دیتے ہیں کہ وہ تین چار دن میں پہنچ جائیں گے اور پھر وہاں پرتعیش زندگی گزاریں گے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

ہر سال باجوڑ سے 15 سو افراد غیرقانونی راستے سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں 2008 لیکر اب تک سینکڑوں افراد جاں بحق جبکہ ہزاروں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ باجوڑ میں کل تھانوں کی تعداد دس ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک اس حوالے سے کسی ایک تھانے میں ایک بھی آیف آئی آر نہیں ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔

نجیب اللہ نے حکومت اور ایف آئی اے سے مطالبہ کیا کہ جو بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ وہ کسی اور خاندان کو برباد نہ کر سکیں۔ نجیب اللہ نے خود ایف آئی آر درج نہیں کی کیونکہ انکا بھائی غیرقانونی طریقے سے گیا ہے لہذا وہ کسی کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایجنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس میں اس بات کی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ اس کو اٹلی لے کر جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ہو کر 14.6 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی 220 ملین آبادی کا پانچواں حصہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

31 سالہ مرسلین خان کا تعلق باجوڑ کی تحصیل خار سے ہے۔ وہ پچھلے پانچ سال سے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ باجوڑ سے غیرقانونی راستوں کے ذریعے یورپ جانے کی بنیادی وجہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو قرار دیتے ہیں۔ مرسلین کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار اور نوکریوں کے مواقع میسر نہیں ہیں اس لیے وہ یورپ جانے کے لیے غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندانوں کو اچھے طریقے سے سپورٹ کر سکیں۔ اس کا اثر ان پڑھ نوجوانوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی یورپ جانے کے لیے ایجنٹس کا سہارا لیتے ہیں۔

مرسلین یورپ کے پرخطر اور غیرقانونی سفر کا ذمہ دار یہ کہہ کر ریاستی اداروں کو قرار دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کو بہتر روزگار اور زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے اس وجہ سے لوگ مجبوراً غیرقانونی راستے اختیار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب مرسلین سے اس کی روک تھام کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ یہاں لوگوں کے لیے بہتر روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ روزگار اور نوکریوں کے حصول اور قانونی راستوں سے یورپ جانے کے حوالے سے آگاہی سیمینارز منعقد کرنے چاہئیں۔

پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں یورپ پہنچنے کے لیے سمندر میں کھو جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ برس کی نسبت دو گنا رہی۔ واکنگ بارڈرز نے پناہ گزینوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ خطرناک سمندری راستوں اور کمزور کشتیوں کو قرار دیا ہے۔

رواں سال فروری میں ترکیہ سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 67 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حادثے میں 20 دن بعد ملنے والی آخری لاش باجوڑ کی تحصیل ماموند سے تعلق سے رکھنے والے تین بچوں کے باپ رحیم اللہ کی تھی۔

ٹی این این سے گفتگو میں اس کے بڑے بھائی مومین نے بتایا کہ بھائی نے غربت اور بے روزگاری کے باعث یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ یہاں سے پہلے وزٹ پر ترکی گئے اور وہاں سے اٹلی جانے کی کوشش میں تھے۔ وہ اس سے پہلے مسلسل سات بار ناکام ہوئے تھے اس لئے انہوں نے آخری بار کوشش کرتے ہوئے کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پیراگراف کو انٹروبنایا جاسکتاہے۔

باجوڑ کے تحصیل خار سے تعلق رکھنے والے انیس سالہ نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ اس نے تین مہینے پہلے براستہ ترکی اٹلی جانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ایران میں گرفتار ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے ایجنٹس باجوڑ کے ہر تحصیل میں موجود ہے، ان کے سرغنہ سے انکی ڈیل فیس بک کے ذریعے ہوئی تھی۔ پھر ہمیں تحصیل خار میں موجود ان کے ایجنٹ سے ملنے کا کہا گیا، ہم پانچ بندے تھے اور ایران تک ہم نے 2 لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کرنے تھے، ایجنٹس نے ہمیں ایران پہنچنے کے بعد یہ رقم ادا کرنے کا کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ان کو بروقت ادائیگی نہیں کرتے تو یہ آپ پر بدترین تشدد کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ کو جان سے مار دیتے ہیں اور پھر قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ان کیخلاف کاروائی نہیں کر سکتے۔

ضلع باجوڑ میں ٹوٹل تین سرکلز ہے اور ان میں تھانوں کی تعداد دس ہے،  جس میں نواگئی خار اور اتمان سلارزئی سرکل شامل ہے، نواگئی سرکل میں تھانوں کی تعداد چار ہے اتمان سلارزئی میں تین جبکہ خار سرکل میں بھی تھانوں کی تعداد تین ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفس باجوڑ کے ایک سینئر اہلکار حبیب اللہ نے بتایا کہ باجوڑ سے غیرقانونی راستوں سے لوگ یورپ بھی جاتے ہیں اور یہاں ایجنٹس بھی موجود ہے لیکن تھانوں میں اب تک کوئی ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی روزنامچہ میں رپورٹ درج ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں لوگ عموما جرگوں کا سہارا لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے انکے پاس ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

 یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں پاکستان سے 40,618 افراد نے جا کر دوسرے ممالک میں پناہ کی درخواست دی۔ سب سے زیادہ درخواستیں اٹلی، آسٹریا اور کینیڈا میں جمع کروائی گئی ہیں جن میں مجموعی طور پر 85 فیصد درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور ییوا جوہانسن کے مطابق بحیرہ روم کے راستے پر سفر کرنے والی تارکین وطن کی کشتیوں میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ییوا جاہانسن کے مطابق ان لوگوں کو ان کی ‘موت کی جانب’ روانہ کر دیا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سال 2022 میں 19 ہزار افراد کو جبکہ رواں سال دس ہزار افراد کو غیرقانونی طریقے سے یورپ کے سفر سے روکا گیا۔ سال 2022 میں مختلف یورپی ممالک میں غیرقانونی طور پر رہائش پزیر 34000 ہزار پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔

ایف ائی اے کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سال 2023 کے دوران انسانی سمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف 216 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ مختلف کارروائیوں کے دوران ایف آئی نے 172 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے سال 2022 میں اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل نے 426 مقدمات درج کر کے 1817 ملزمان کو گرفتار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور ہر صورت میں ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پریس پریس فاونڈیشن فیلوشپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button