لائف سٹائل

سونے کی خرید مہنگی اور فروخت سستی، پالیسی کے نفاذ کے لیے ہائی کورٹ میں رٹ دائر

محمد فہیم

پشاور ہائی کورٹ کی 9 خواتین وکلاء سمیت 35 افراد نے ملک میں سونے کی خریدو فروخت کے لیے یکساں نظام کے نفاذ کے لیے عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کر دی۔

پشاور ہائی کورٹ کی وکیل ایڈوکیٹ نازش مظفر کی وساطت سے دائر رٹ پٹیشن میں 12 فریقین کو ہائی کورٹ نے نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔

رٹ میں وفاقی حکومت، وزارت صنعت، وزارت کامرس، سٹیٹ بینک، جیمز اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی، پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، پاکستان جیمز جیولرز ٹریڈرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان کمرشل ایکسپوٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان جیمز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن، صرافہ ایسوسی ایشن اندر شہر پشاور اور صرافہ ایسوسی ایشن پشاور کینٹ شامل ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی صارفین اکثر دھات کی بے قاعدگی کا شکار ہوتے ہیں سونار کی جانب سے خریدار کو بتایا جائے گا کہ اس نے 22 قیراط کا سونا خریدا ہے لیکن جب وہ اسے بیچنے یا بدلنے جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ سونا صرف 18 قیراط کا ہے اور اس طرح بہت سے صارفین کے پیسے ضائع ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں اعلیٰ قیراط کے زیورات پر زور دیا جاتا ہے، قیمتی دھاتوں کے آرٹیکلز کے کنٹرول اور مارکنگ کے کنونشن کا حوالہ ہے جس پر کئی ممالک نے 1972 میں دستخط کیے تھے۔

کنونشن کا مقصد قیمتی دھاتی اشیاء کی تجارت کو آسان بنانا تھا جبکہ ساتھ ہی ساتھ ان اشیاء کی مخصوص نوعیت کے جواز کے مطابق منصفانہ تجارت اور صارفین کے تحفظ کو برقرار رکھنا تھا۔ پاکستان میں ستم ظریفی یہ ہے کہ سونے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی کمی ہے اور گاہکوں کے ساتھ جیولرز کے کاروبار کو یکسر نظر انداز کیا گیا جبکہ صارفین جیولرز کے رحم و کرم پر ہیں اور یہ مافیا بن گیا۔

بہت سے سوناروں نے سونے کے زیورات میں اضافی قیمت ڈال کر اسے پالش، مزدوری یا گاہکوں کو غلط قیراط سونا بھی دے کر من مانی قیمتیں لگانا شروع کر دیئے۔ ملک میں تمام انجمنیں سوناروں اور جوہریوں کی حفاظت کرتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سونے کے صارفین کے ساتھ معاملات کی وضاحت کے لیے بات نہیں کرتا۔ سونے کے زیورات میں ہر جوہری کے پاس پالش چارجز ہوتے ہیں اور خرید و فروخت اس کی مرضی سے ہوتی ہے۔

سونے کی خریدو فروخت کے لیے پالیسی کیا ہوگی؟

بین الاقوامی گولڈ مارکیٹ کے مطابق سونے اور سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کی ایک یکساں پالیسی ہو گی۔

عالمی سطح پر سونے کے کاروبار کے لین دین میں گرام اور ملی گرام کی اکائیاں استعمال ہوتی ہیں۔ اکائیوں کے علاوہ سونے اور سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کے طریقہ کار کا حصہ بنانے کے لیے کچھ دیگر معیارات کی ضرورت ہے۔

رٹ میں کہا گیا ہے کہ سونے کے زیورات کی خرید مزدوری اور پالش کی بنیاد پر نہیں کی جانی چاہئے بلکہ زیورات کی تیاری کے حساب سے فی گرام ہونی چاہئے۔ سونے کی قیمت میں مزدوری، پالش اور بنوائی شامل کیے جائیں۔ رسید میں تمام چارجنگ سروس اور سونے کے زیورات کے لیے علیحدہ ہیڈز ہوں اور آخر میں سونے کے عین مطابق قیراط اور ہال مارک گولڈ اسٹامپ یا نمبر کی تصدیق کے ساتھ ٹوٹل ہو۔

تجویز دی گئی ہے کہ مناسب قانون سازی جس کے تحت اگر ضرورت ہو تو ہال مارکنگ کو لازمی بنایا جا سکتا ہے۔

ہال مارکنگ کیا ہے؟

ہال مارکنگ سونے کے زیورات کے ضابطے کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس میں ایک مجاز پرکھ اور ہال مارکنگ سینٹر کے ذریعے سونے کے زیورات کی تصدیق شامل ہے جو سونے کی پاکیزگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت کو ہال مارکنگ کے لیے سخت معیارات اور رہنما خطوط قائم کرنے چاہئیں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ مارکیٹ میں صرف حقیقی اور درست نشان زدہ زیورات ہی فروخت ہو۔ ہال مارکنگ مراکز کا باقاعدہ معائنہ اور آڈٹ سونے کی بین الاقوامی مارکیٹ کی طرح عمل کی سالمیت کی ضمانت دے سکتا ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button