لائف سٹائل

فیکٹ چیک: ڈاکٹر زبیر کی موت تشدد سے نہیں بلکہ پانی میں ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور کے رہائشی ڈاکٹر محمد عمیر کا کہنا ہے کہ انکے بھائی ڈاکٹر زبیر کی موت دریائے کابل میں نہانے کے دوران ڈوب کر مرنے سے ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ڈاکٹر عمیر نے ٹی این این کو بتایا کہ انکا بھائی ڈاکٹر زبیر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا اور وہ اپنے دیگر ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ ضلع چارسدہ کے علاقہ حاجی زائی میں واقعہ دریائے کابل میں نہانے گیا تھا جہاں پر دریا کی موجیں انکو بہا کر لے گئی جس کے بعد اسی دن رات کے وقت انکی لاش نوشہرہ سے برآمد ہوئی۔

ڈاکٹر عمیر کہتے ہیں "سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں مگر اس بات نے ہمیں انتہائی دُکھ پہنچایا کہ سوشل میڈیا پر لوگ کہتے ہیں کہ انکی لاش گٹر سے ملی ہے۔ ایک طرف ہم اپنے بھائی کی موت کے صدمے سے گزر رہے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی والے لاش کا مذاق اُڑا رہے ہیں”۔

مرحوم ڈاکٹر زبیر کے بھائی نے مزید بتایا "میرے بھائی کا کیا یہاں تک کہ ہمارے خاندان کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ وہ خود دو بچوں کے باپ تھے۔ ہمیشہ اپنی سماجی خدمات میں مصروف عمل رہتے تھے”۔
ڈاکٹر عمیر نے ان لوگوں سے اپیل کی کہ انکے بھائی کے متعلق ہونے والے ٹویٹس کو ڈیلیٹ کر دیا جائے بصورت دیگر وہ ان افراد کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر ہزاروں اکاؤنٹس سے ڈاکٹر زبیر کی تصویر کے ساتھ خبر میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ‘ حیقیقی آزادی کی جنگ کی ایک اور شہید’ ڈاکٹر زبیر کی لاش رات کے وقت گٹر سے ملی جو کئی دنوں سے لاپتہ تھے، انکا قصور یہ تھا کہ وہ 9 مئی کے واقعات میں تھے اور انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔

اس قسم کے ملتے جلتے ٹویٹس کو چند گھنٹوں میں مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں لائیکس، کمنٹس اور ریٹویٹ ملیں جس میں نہ صرف عام صارفین نے حصہ لیا بلکہ پاکستان میں سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مبینہ طور پر حامی صحافیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اسحاق پی ٹی آئی کے نام سے منسوب صارف نے جب ڈاکٹر زیبر کے حوالے سے ٹویٹ کی تو اسے چند گھنٹوں میں 9 ہزار ریٹویٹس، 15 ہزار لائیکس اور تقریباً 15 سو کمنٹس ملے جسے ملک کے مشہور اینکر پرسن معید پیرزادہ نے اپنی آفیشنل اکاؤنٹس سے بھی ریٹویٹ کر دیا تھا۔
ٹی این این نے جب چند چیدہ چیدہ آفیشل اکاؤنٹس کی وال کا جائزہ لیا تو انکے شئرکردہ مواد سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان میں بیشتر صارفین عمران خان کی فینز ہیں کیونکہ عمران خان مخالف یا عمران خان کی سیاسی مخالفین کے حق میں کوئی مواد نظر نہیں آیا۔

https://twitter.com/IshaqKh26581495/status/1668204007678963712
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران کو القادر ٹرسٹ کے غبن کیس میں گرفتار کیا گیا تو حکومتی موقف کے مطابق انکی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک میں سرکاری اور فوجی املاک کو آگ لگا کر نقصان پہنچایا تھا جن کو سزائیں دینے کیلئے پارلیمنٹ سے قرارداد منظور ہو کر ملٹری کورٹ میں مقدمات چلانے پر اتفاق ہوا تھا۔

ہوشیار رہئے
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر بخت زمان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جعلی خبروں کی بنیادی وجہ بطور صحافی، شہری یا معاشرے میں احساس کا فقدان ہے اور ہر شخص اس دوڑ میں لگا ہوا ہے کہ مین سٹریم میڈیا یا اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے فوری خبر دیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جھوٹ پر مبنی خبر پھیل جاتی ہے۔
ڈاکٹر بخت زمان کے مطابق صحافتی اصولوں کے مطابق انہونی خبر کو دو مصدقہ اور زمہ دار ذرائع سے تصدیق کرنا ضروری ہوتا ہے مگر ریٹنگ کی دوڑ میں ان اصولوں کو روندا جاتا ہے۔

انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ خبر وہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہو، کسی خبر کو کسی خبر کے درست یا غلط ہونے کی جانچ کے لیے کچھ پیمانے سمجھنے ضروری ہیں، پہلا یہ کہ اس خبر کا منبع کیا ہے یا خبر دینے والا کون ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا یہ خبر ممکن بھی ہے؟ یا کیا کہی جانے والی بات کی کوئی منطق بنتی ہے؟ اور میرے یہ خبر آگے شیئر کرنے سے فائدہ یا نقصان کسے ہو گا؟
انکا کہنا ہے ” یہ ہم نے کیوں ضروری سمجھا ہے کہ سب سے پہلے خبر میں دونگا، یہ ضروری کیوں نہیں سمجھتے کہ جس خبر کو میں دونگا وہ خبر تصدیق شدہ اور حقائق پر مبنی ہوگا تو یہ اس خبر سے زیادہ بہتر ہے جو جلدی میں دیا جائے جسے پھر مجھے بھی شرمندگی اُٹھانے پڑتی ہے اور میرے ادارے کو بھی”۔

فیک نیوز ایک عالمی مسئلہ
ابلاغی ماہرین کے مطابق جعلی خبریں ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کا رجحان ان خطوں میں زیادہ ہے جہاں ایک طرف عام لوگ خبروں کی تصدیق کی اہلیت نہیں رکھتے جبکہ دوسری جانب سے جعلی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانون کی گرفت کمزور ہوتی ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر جھوٹے خبریں پھیلانا ایک کاروبار بن گیا ہے اور اسکے نتیجے میں وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔
محمود جان کہتے ہیں کہ فیک نیوز ایک عالمی مسئلہ ہے کیونکہ جب امریکہ میں سابق صدور ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان الیکشن ہو رہا تھا تو ٹرمپ نے راہ ہموار کرنے کیلئے جعلی خبروں کا سہارا لیا تھا جس کے نتیجے میں وہ جیت کر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی طرح اٹلی میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں نے جعلی خبرپھیلائی کہ انہوں نے فلاں بچے کو ذبح کیا ہے جس سے عیسائیوں نے اشتعال میں آکر یہودیوں کے املاک کے ساتھ انسانوں کو بھی نقصان پہنچایا مگر جب دوسرے دن لوگ نکلیں تو اس میں وہ بچہ بھی شامل تھا جس کے قتل ہونے کی خبر چلی تھی۔

محمود جان بابز آگے کہتے ہیں کہ آج کل کے دور میں سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ گروپ کے ذریعے سب سے زیادہ جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہے کیونکہ یوٹیوب، ٹویٹر اور فیس بک پر آسانی سے جعلی خبریں روکی جاسکتی ہے مگر اسکے لئے قانون کی گرفت مضبوط ہونی چاہئے۔

صحافی یا عوام کیا کریں؟
ڈاکٹر بخت زمان یوسفزئی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کیلئے جعلی خبروں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ جب کوئی انہونی خبر عوام کی نظروں سے گزرے تو اسے تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہئے اور چند سوالات اپنے آپ سے پوچھنے چاہئے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ جس بندے نے خبر دی ہے وہ کتنا قابل اعتبار ہے؟ خبر دینے والے کا پس منظر کیا ہے؟ ماضی میں جتنے خبریں دی ہے ان میں کتنی صداقت تھی؟ تو اگر ان حوالوں سے عوام کے اذہان میں کوئی ابہام پیدا ہو رہے ہو تو یقین کرنے سے پہلے اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے جب خبر تصدیق تک نہ پہنچ جائیں۔

محمود جان بابر صحافیوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ صحافت اگر اصل روح اور اصولوں کے مطابق کی جائے تو اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ جھوٹ کی روک تھام میں مدد دیتا ہے۔ صحافی کسی کی آلہ کار نہ بنیں، جب ان کے پاس کسی تنظیم، گروہ یا سیاسی جماعت کی طرف یا حوالے سے خبر موصول ہوجائے تو نشر/شائع کرنے سے پہلے تصدیق کرلینی چاہئے۔
محمود جان کا کہنا ہے ‘اب اگر ڈاکٹر زبیر کے حوالے سے جھوٹی خبر پھیلائی گئی ہے ہو تو اس میں نہ گھر کے کسی فرد کا موقف شامل ہے، نہ پولیس یا انکے ساتھیوں کا موقف شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف مقصد یہ تھا کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے یہ خبر پھیلائی گئی تھی”۔
ابلاغی ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی خبروں کی روک تھام میں صحافیوں پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کا کام خبروں کی تصدیق ہی ہے اگر اس زمہ داری کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا جائے تو جعلی خبروں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button