پناہ گزینوں کا عالمی دن: پاکستانی خواتین کے غیرملکی شوہر سرکاری نوکری کے بھی اہل ہوگئے
خالدہ نیاز
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے جس میں پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاکستان اوریجن کارڈز جاری کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نجیبہ سباون نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اوراس سے ان خواتین اور انکے بچوں کی زندگی پر بہت مثبت اثر پڑے گا جنکی افغان باشندوں سے شادی ہوچکی ہیں۔ پشاور میں رہائش پذیر افغانستان سے تعلق رکھنے والی نجیبہ سباون نے کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ یہ کارڈز نہ صرف ان چار افراد کو ملے ہیں بلکہ جتنے بھی افغان باشندے ہیں اور انہوں نے یہاں پاکستانی خواتین سے شادیاں کی ہے انکو یہ کارڈز مل جائیں گے۔
نجیب سباون نے بتایا کہ ان کارڈز کی وجہ سے ان افغان باشندوں کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے مثلا انکو پولیس کی جانب سے تنگ نہیں کیا جائے وہ اپنے نام پر کاروبار بھی کرسکیں گے۔ اس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ یہ باشندے اپنے نام پر کاروبار بھی نہیں کرسکتے تھے عموما یہ لوگ اپنی بیوی یا اس کے باقی رشتہ داروں کے نام پر کرتا تھا۔
یاد رہے اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میں پیدا ہونے والے غیرملکی بچوں کو بھی پاکستانی شہریت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ یقینا ایک بہت اچھا اقدام ہے
دوسری جانب کوہاٹ میں رہائش پذیر شمس عزیز کا کہنا ہے کہ جن پاکستانی مردوں کی افغانی خواتین سے شادیاں ہوئی ہے ان کے حوالے سے عرصہ دراز سے پاکستان میں کام ہورہا ہے اور کچھ افغانی خواتین کو کارڈز ملے ہوئے ہیں تاہم جن پاکستانی خواتین نے افغان مردوں سے شادیاں کی ہے اس حوالے سے کام نہیں ہوا اور یہ یقینا ایک بہت اچھا اقدام ہے۔
شمس عزیز افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور قائداعظم یونیورسٹی سے ایم فل کررہے ہیں۔ شمس عزیز نے ٹی این این کو بتایا کہ افغانستان میں اس وقت غیر یقینی صورتحال ہے کسی کو نہیں پتہ کہ اگلے لمحے کیا ہوگا تو ایسے میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔
شمس عزیز نے کہا کہ پاکستان میں افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے جس سے قریبا دس لاکھ افغان مہاجرین متاثر ہونگے ایسے میں یہ فیصلہ ان افراد کے لیے خوش آئند ہے جنہوں نے پاکستانی خواتین سے شادیاں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اچھا فیصلہ کیا اب انتظامیہ اور باقی اداروں سے بھی درخواست کرتے ہیں اس فیصلے کو عملی جامہ پہنایا جائے کیونکہ اس سے بہت سارے خاندانوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ان چار درخواست گزار خواتین کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے ٹی این این کو بتایا کہ عدالت نے ان پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاکستان اوریجن کارڈز جاری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ انکو بہت مشکلات کا سامنا تھا۔ سیف اللہ محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ ان خواتین کو یہ مسئلہ تھا کہ انکے بچے اور یہ خود پاکستان میں ہیں جبکہ انکے شوہردوسرے ملک میں ہوتے اور وہ جب بھی آتے انکو ویزہ لگانا پڑتا۔ جب ان کا ویزہ ختم ہوجاتا تو انکو یہاں رہنے میں مشکلات سامنے آتی۔
پاکستان اوریجن کارڈ کے تحت افغان باشندوں کو کون کون سے حقوق مل گئے ہیں
سیف اللہ محب کاکاخیل کے مطابق یہ کارڈز ملنے سے انکو سارے حقوق مل جائیں گے اور اانکی زندگی بہتر ہوجائے گی۔ یہ لوگ اب ووٹ بھی ڈال سکیں گے، انکو سرکاری نوکری بھی مل سکتی ہے۔ یہ لوگ ابھی اب یہاں اپنا کاروبار بھی کرسکیں گے اور بغیر ویزہ کے یہاں زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے پاکستانی خواتین کے ان شوہروں کو وہ تمام حقوق مل گئے ہیں جو ایک پاکستانی شہری کو حاصل ہے۔
سیف اللہ محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے کیسز بھی ہیں جن میں لوگ مکمل طور پر یہاں پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں اور شہریت کا مطالبہ کیا ہے تو ایسے چند کیسز کا بھی فیصلہ وہچکا ہے اور کچھ کیسز کی سماعت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے جنہوں نے پاکستانی خواتین سے شادیاں کی ہیں اور وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کیا ہے؟
اس حوالے سے سیف اللہ محب کاکاخیل نے بتایا کہ اس قانون کے تحت جو بھی پاکستانی مرد کسی دوسرے ملک کی خاتون سے شادی کرلے تو اس کی بیوی کو پاکستانی شہریت مل سکتی ہے۔ قانون کے تحت پاکستانی خواتین جو غیرملکی مردوں سے شادی کرتی ہیں انکو پاکستانی شہریت کا حق حاصل نہیں تاہم وفاقی شرعی عدالت نے پاکستان سیٹزن ایکٹ 1951 کے سیشکن 10(2) کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے کہ یہ ان خاندانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
اس سے قبل بھی پشاور ہائی کورٹ نے پاکستانی خاتون کے غیر ملکی شوہر کو شہریت دینے کا حکم دے دیا تھا۔
ثمینہ روحی نامی خاتون نے سال دو ہزار اکیس میں اپنے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈوکیٹ کی وساطت سے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن (2) 10 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے اس خاتون کے شوہر کو پاکستان اوریجن کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
ورلڈ ریفیوجی ڈے
آج یعنی بیس جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان تمام پناہ گزینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے جن کو یا تو اپنے ملک سے بے دخل کیا گیا ہے یا وہ جان بچانے کے لیے اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں دس کروڑ سے زیادہ افراد پناہ گزین ہے جن کو زبردستی بے گھر کیا گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں اس وقت 17 لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر رہائش پذیر ہے جبکہ آٹھ لاکھ افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرینوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد لاکھوں افغان باشندوں نے یہاں پاکستان کا رخ کیا ہے جو غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔