سونے کی قیمت کا ڈالر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
آفتاب مہمند
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قمیت اور ملکی خراب معاشی صورتحال نے پشاور کے صرافہ بازار کو بھی نہ بخشا۔ پشاور میں واقع خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے مارکیٹ یعنی صرافہ بازار کے کاروباری حضرات اور دوکانداروں کے مطابق کاروبار کی خراب صورتحال کے باعث اب تک سینکڑوں صراف مارکیٹ چھوڑ چکے ہیں۔ صرافہ کاروبار چھوڑنے والے کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کسی نے چھوٹا سا کریانہ سٹور کھول دیا ہے۔ یہاں پہلے کسی بھی ایک دوکان میں دوکاندار، دو تین استاد اور کم ازکم 5 شاگرد (کاریگر) کام کرتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر دوکانداروں نے اضافی استاد و شاگرد فارغ کردیئے ہیں۔ بس ایک ہی استاد اور زیادہ سے زیادہ دو شاگردوں سے کم چلایا جارہا ہے۔ جو شاگرد ( کاریگر) تھے وہ بچارے تو اب ریڑھے لگا کر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔
ٹی این این کیساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے صرافہ بازار کے سنئیر نائب صدر حاجی فرہاد صراف، جنرل سیکرٹری بختیار، غفران صراف اور سیکرٹری اطلاعات عبدالوہاب صراف نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر سونے کا کاروبار چونکہ ڈالر میں کیا جاتا ہے لہذا ڈالر کی قیمتوں کا سونے پر براہ راست اثر رہتا ہے جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے یا کمی آتی ہے تو اسی مناسبت سے سونے کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاو آتا رہتا ہے جسکا اثر ہمارے جیسے ممالک اور یہاں کی تمام مارکیٹس پر آن پڑتا ہے۔ چونکہ ڈالر کی قیمت ایک جگہ پر نہیں رہتی اسی وجہ سے سونا بھی کبھی مہنگا ہوتا ہے تو کبھی اسکی قیمتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں سونے کے کاروبار و قیمتوں کا انحصار سٹاک ایکسچینج پر بھی رہتا ہے جب بھی سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان ہوتا ہے تو سونے کی قیمتوں میں ضرور فرق آتا ہے لیکن جب مندی کا رجحان رہتا ہے تو یقینا سونے کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پشاور کے صرافہ بازار میں عموما دوبئی اور سعودی عرب سے سونا آتا ہے لہذا یہاں کی مارکیٹ کا انحصار ان ممالک کے مارکیٹوں پر بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ کاروبار ڈالر میں ہوتا ہے لہذا زیادہ تر انحصار ڈالر ہی کے قیمتوں پر رہتا ہے۔
عبدالوہاب بتاتے ہیں زیادہ دور کی بات بھی نہیں 2017 یا اس سے قبل پشاور کے صرافہ بازار میں ایک تولہ سونے کی قیمت 40 سے 50 ہزار روپے تک تھی لیکن حالیہ خراب معاشی صورتحال اور ڈالر مہنگا ہونے کے باعث ایک تولہ پونڈ پاسا کی قیمت اب تقریبا 2 لاکھ 18 ہزار روپے ہے جبکہ خختہ (اینٹ والی سونا) 2 لاکھ 27 ہزار روپے کا ملتا ہے تو ایسے میں سونا کون لیگا۔ پھر تو کاروبار پر اثر پڑنا ہی تھا جہاں کئی دوکاندار کاروبار چھوڑ گئے۔ سونا بنانے والے استاد اور شاگردوں (کاریگروں) کی تعداد میں کمی تو لانی ہی تھی۔
عبدالوہاب صراف کہتے ہیں کہ پشاور میں دو قسم کے سونے کا کام کیا جاتا ہے پونڈ پاسا اور خختہ ( اینٹ والی سونا)۔ پونڈ پاسا سے لوگ شادی بیاہ و دیگر تقریبات کیلئے زیور، انگوٹھے، ٹاپس، نگلس وغیرہ بناتے ہیں جبکہ خختہ لوگ اسی لئے لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاس سںبھال کر رکھے۔ اینٹ لینے والے لوگوں کو اچانک اگر پیسوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو پھر فروخت کر لیتے ہیں ورنہ انکے پاس ہی پڑا رہتا ہے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اینٹ کی بنسبت چونکہ پونڈ پاسا کا وزن کم ہوتا ہے تو ابھی لوگ سمجھتے ہیں کہ چلو اسکی قیمت کم ہوگی لہذا پونڈ پاسا ہی لیتے ہیں۔ اب جسطرح اکثریتی لوگ پونڈ پاسا لینے سے محروم ہوتے جارہے ہیں تو ایسے میں اینٹخختہ تو اس سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے لہذا وہ بھی لینا اب لوگوں کی بس کی بات نہیں رہی۔ البتہ بعض لوگ ضرور انکے ہاں آتے رہتے ہیں کہ اپنے پاس رکھنے کیلئے اینٹ کو خریدا جائے لیکن پہلے کی بنسبت بہت ہی کم۔
انکا مزید بتانا ہے دوکانداروں کو بھی پونڈ پاسا میں تھوڑا زیادہ فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس پر کام کرکے بنایا جاتا ہے اور تھوڑا بہت سونا بچ بھی جاتا ہے جو دوکاندار پھر کسی اور کام کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔
لیکن اسکو بھی دیکھنا چاہئیے کہ دوکانوں کے کرایے بڑھ گئے ہیں، بجلی بلوں میں اضافہ ہو چکا ہے، سونا بنانے والے مختلف آلات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، استاد اور شاگردوں کے معاوضے بڑھ گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بات مختلف ٹیکسز کی، ٹیکسوں کی تو بھر مار ہے تو ایسے میں سارا اثر تو صرافوں ہی پر پڑنا تھا جو شدید متاثر ہو چکے ہیں۔
آج سے 10 سال قبل خیبر پختونخوا کے تمام علاقوں کے لوگ صرف شادیوں کے مواقع پر نہیں خوشیوں کے دیگر تقریبات پر بھی لوگ سونا بنانے تھے اسی طرح کئی لوگ کسی کو بھی بطور گفٹ سونا دیتے تھے لیکن اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی کو گفٹ میں سونا دیا جائے۔
عبدالوہاب مزید بتاتے ہیں کہ صرافہ بازار میں 10 سال قبل خریداری کی غرض سے اگر ماہانہ 1000 ہزار لوگ آتے تھے تو اب 100 بھی نہیں آرہے۔ جب لوگ بازار ہی نہیں آرہے تو ہم لوگ دن پھر گاہک آنے کی تلاش میں راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ پہلے علاقائی ڈیزائنز کے علاوہ بھی صاحب استطاعت لوگ دوبئی یا سنگاپور طرز کے سیٹس یا مختلف ڈیزائنز بناتے تھے لیکن شدید مہنگائی کے باعث اب وہ بھی نہیں رہا۔ یہاں کی مارکیٹ میں چونکہ پورے صوبہ سے لوگ آتے رہتے ہیں تو پہلے اگر ایک شخص شادی بیاہ کیلئے 5 یا 10 تولے سونا بناتا تھا تو اب اکثریتی لوگ ایک یا دو تولہ بنانے پر مجبور ہیں۔
صرافہ بازار کے عہدیداروں کے مطابق انکا نہیں خیال کہ صرافہ مارکیٹ اتنی جلدی دوبارہ اٹھنے والا ہے۔ موجودہ ملکی معاشی صورتحال، بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی کے باعث جسطرح عوام متاثر ہیں سونا نہیں لے سکتے یا نہیں بنانے سکتے تو اسی طرح صراف لوگ بھی شدید متاثر ہو چکے ہیں اور خدشہ موجود ہے کہ باقی ماندہ لوگ بھی مستقبل میں اسی کاروبار کو خیر آباد کہہ کر کوئی اور کام شروع کریں یا شاید دیہاڑی کرنے پر بھی مجبور ہونگے۔