ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس عائد ہونے کے بادل منڈلانے لگے، یہ علاقے ٹیکس سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟
ناصر زادہ
25 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے پانچ سال مکمل ہونے پر رواں سال 30 جون کے بعد ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس عائد ہونے کے بادل منڈلانے لگے ہیں تاہم ملاکنڈ ڈویژن کے تاجر، عوام اور سیاسی قائدین ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور حکومت سے مزید دس سالہ استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
سال 2018 میں 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ قرار دینے کے بعد پاٹا (صوبائی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات) کو بھی صوبے کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی۔ اس ترمیم کے بعد صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ملاکنڈ ڈویژن بھی ٹیکس زون میں آگیا تاہم اس وقت ملاکنڈ کے تمام اضلاع کے عوام، سیاسی قائدین اور تاجروں کے احتجاج کے بعد حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن کو پانچ سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیدیا تھا۔
ٹی این سے بات کرتے ہوئے تاجر عرفان نے بتایا کہ ملاکنڈ ڈویژن پہلے ہی سے بدامنی، زلزلہ اور سیلاب کی سے وجہ سے متاثر ہوا ہے جبکہ اب بھی ملاکنڈ میں نہ تو بڑے کارخانے ہیں اور نہ ہی کاروبار کرنے وسیع ذرائع موجود ہیں اس لیے حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاہدے پر نظر ثانی کریں اور ملاکنڈ ڈویژن کو 10 سال تک مزید ٹیکس نے مستثنیٰ کریں۔
ملاکنڈ ڈویژن اب تک ٹیکس سے مستثنیٰ کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں دیر بالا سے تعلق رکھنے والے سابق ناظم علی خان نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد 1969 تک دیر بالا پائین نواب دیر کی ریاست جبکہ چترال مہتر چترال، سوات، شانگلہ، کوہستان اور بونیر والی سوات کی ریاست تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب 1969 میں یہ تمام علاقے پاکستان کے ساتھ الحاق کرتے تھے تو اس وقت کے مہتر، نواب اور والی نے کچھ شرائط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کی تھی جن میں ایک شرط یہ تھی کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا اور یہ علاقہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا اب حکمران اگر ٹیکس لاگو کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگئی۔
سوات سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کی بہو اور سابق ایم این اے مسرت احمد زیب نے ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس نفاذ کے حوالے سے بتایا کہ والی سوات نے ریاست کے ادغام کے وقت حکومت پاکستان سے معاہدہ کیا تھا کہ ضلع سوات میں کسی بھی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، یہ معاہدہ کچھ عرصے کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے تھا۔
کیا ملاکنڈ ڈویژن کے عوام ٹیکس نہیں دیتے؟
ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع چترال، دیر بالا، دیرپائین، سوات، بونیر، شانگلہ، علاقہ بٹ خیلہ اور سخاکوٹ میں پاکستان بننے اور ادغام کے بعد ڈائریکٹ ٹیکس کا نظام لاگو نہیں تاہم یہاں کے باشندوں سے بجلی کے بلز، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، موبائل صارفین سے لوڈ، موبائل فون کی خریداری اور اس کے ساتھ تمام اشیاء جن پر سیلز ٹیکس لاگو ہے، میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
واضح ہے کہ 2016 میں صوبائی اسمبلی سے ایک قرار داد پاس ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس فری زون ہے اور یہاں کے موبائل صارفین سے لوڈ کی صورت میں موبائل کمپنیاں ٹیکس کی کٹوتی کرتے ہیں اس کے بعد موبائل کمپنیوں نے یہ ٹیکس آدھی کر دی تھی تاہم 2018 کے بعد موبائل صارفین پر یہ ٹیکس دوبارہ بڑھا دی گئی ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس نظام لاگو ہونے کے بعد خدشات کیا ہیں؟
ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں 20 لاکھ سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں کاروبار کا زریعہ اور عوام کے لیے سہولت ہیں۔
ٹیکس نظام لاگو ہونے بعد اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس حوالے سے گاڑیوں کے کاروباری شخصیت ہدایت اللہ نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے ایک سکیم شروع کردی تھی جس میں این سی پی گاڑیوں کی رجسٹرڈ کرتا تھا تاہم میں بعد میں کچھ قانونی معملات کی وجہ سے ان کی رجسٹریشن بند کر دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں اگر ٹیکس کا نظام لاگو ہوا تو حکومت اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کو بحق سرکار تو نہیں کرسکتا ہاں اس کے لیے راستہ نکالنا ہوگا، یا رجسٹرڈ کرنا ہوگا، یا پہلے کی طرح محصوص علاقے تک یہ گاڑی چل سکتی ہیں اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری جانب ٹیکس نظام لاگو ہونے کے حوالے سے ملاکنڈ ڈویژن کے سیاسی قائدین، تاجروں اور مشران نے ایک بار پھر احتجاج کی دھمکی دی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس مدت میں مزید دس سال اضافہ کریں۔
جماعت اسلامی کے سابق ایم پی اے عنایت اللہ نے بتایا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کا نفاذ یہاں کی عوام کے ساتھ نا انصافی ہے کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن پہلے سے مسائل کا شکار ہیں جبکہ یہاں کاروبار کے مواقع بھی میسر نہیں۔