‘بہتر ہوتا شریعت کورٹ خواجہ سراؤں کی قتل عام کو بند کرتا’
مصباح الدین اتمانی
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ٹرانس ایکشن الائنس خیبر پختونخوا کی صدر فرزانہ ریاض نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ جب یہ قانون بن رہا تھا تو چاروں صوبوں کے خواجہ سراء اس میں شامل تھے جس میں ہم نے مشترکہ طور اپنے بنیادی حقوق کے لیے تجاویز پیش کی تھی جبکہ اس قانون کو بنانے پر کئی سال لگے تھے جس کو شرعی عدالت نے ختم کر دیا۔
انہوں نے شرعی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘ بہتر ہوتا شرعی عدالت اس ایکٹ کو ختم کرنے کے بجائے خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی قتل عام کو بند کرتا، ان کی قاتلوں کو سزا دی جاتی لیکن یہاں تو ہم سے اپنے بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے نے خواجہ سراؤں کو مایوس کردیا ہے جبکہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔
یاد رہے کہ شریعت کورٹ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بناء پر نہیں کیا جاسکتا اس لیے پاکستان میں خواجہ سراء اپنی جنس تبدیل نہیں کرسکتے جبکہ خواجہ سراؤں کو مرد اور عورت بھی نہیں کہا جاسکتا۔
دوسری جانب خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خوجہ سراء ماہی گل شرعی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔ ان کے بقول یہ بل خواجہ سراؤں کی حقوق کے تحفظ کے لیے تھا۔
” ہم شریعت کو مانتے ہیں لیکن اس قانون میں کہی بھی ہم نے شادی کی بات نہیں کی،ہم جنس پرستی بات نہیں کی، ہم نے اس بل میں تعلیم، صحت اور وراثت میں حصے کی بات کی تھی جو اس معاشرے میں ہر مرد اور عورت کو ملتی ہے، بتائیں اس میں غلط کیا ہے؟”
ماہی گل سمجتھی ہیں کہ اس ایکٹ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اس لیے اس حوالے سے غلطی فہمیاں پیدا ہوئی ہیں تاہم اس کو مسترد کرنا ہمارے حقوق پر سوالیہ نشان ہے۔
ماہی گل نے بتایا کہ یہاں خواجہ سراؤں کو اٹھایا جاتا ہے، ان کے بال کاٹ دئے جاتے ہیں، ان کو قتل کیا جاتا ہے، یہ قانون ہم نے اپنے تحفظ کے لیے بنوایا تھا، اس قانون کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں، اس سے ہمارے مسائل اور بڑھیں گے، ہم اب غیر محفوظ ہو گئے ہیں ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم سڑکوں پر نکلیں۔
ٹرانس جینڈرز پروٹیکشن ایکٹ کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مطابق خواجہ سراء خود اپنی جنس کی شناخت کرسکتے ہیں اور وہ انہیں تبدیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ایکٹ کے مطابق نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہے کہ خواجہ سراء جس شناخت کو چاہے وہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائیں گی۔
اس ایکٹ میں ان کے تمام بنیادی حقوق تسلیم کئے گئے ہیں، انہیں ملازمت، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات دینے کو قانونی حیثیت دی گئی اور وراثت میں ان کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا۔ ان سے امتیازی سلوک پر سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی بڑی وجہ نادرا کا ڈیٹا ہے؟
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن قمر نسیم کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی بڑی وجہ نادرا کی جانب سے سینٹ میں پیش کیا گیا ڈیٹا ہے۔ ڈیٹا سے یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ بہت سارے مردوں کو عورت اور عورتوں کو مردوں کے شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جس کے بعد اس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔
قمر نسیم کے مطابق خواجہ سراؤں میں سے بھی کچھ نے اس کو غیر اسلامی قرار دیکر اس کے خلاف پیٹیشن دائر کی، شرعی عدالت میں اس پر ایک طویل بحث ہوئی، وفاقی شرعی عدالت نے اس کے بعض شقوں کو اسلام سے متصادم قرار دیا اور اس کو کالعدم قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ قانون بن رہا تھا اس وقت پوری دنیا میں 12 ایسے ممالک تھے جو لوگوں کو اپنی جنس کا تعین خود کرنے کا حق دے رہے تھے اور اب ایسے ممالک کی تعداد 16 ہے۔
بلووینز کے پروگرام منیجر قمرنسیم کے مطابق 2010 میں پہلی بار سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو الگ جنس دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد نادرا ان کو من پسند جنس کا شناختی کارڈ جاری کرتا تھا۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کے اندر رہنے والے خواجہ سراوں کے حقوق کا تعین کرنا تھا۔ ‘یہ ان کی حقوق کی تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے، اس قانون کے مطابق ان سے صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ ہو، ان کی تعلیم ، صحت، ووٹ اور ان تمام حقوق تک رسائی ہو جو آئین پاکستان نے دوسرے شہریوں کو دی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس میں 6 ترامیم ہوئی تھی، سینیٹ کی کمیٹی نے اس کی منظوری دی تھی لیکن حکومت ختم ہوئی اور اس پر آگے قانون ساز اسمبلیوں میں بات نہیں ہوئی، ترامیم میں وہی چیزیں تھی جس کی بنیاد پر اس بل کو کالعدم قرار دیا گیا۔
قمر نسیم نے مزید بتایا کہ خواجہ سراؤں کے حوالے سے پہلے سے ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ خواجہ سراء کون ہے، پاکستانی قانون کے اندر ہر وہ شخص مرد یا عورت جو خود کو پیدائشی جنس سے متصادم تسلیم کریں تو وہ خواجہ سراء مرد یا عورت تسلیم کیا جائے گا۔
قانون میں موجود خواجہ سرا کی تعریف پر اعتراضات کس کو تھے؟
قمر نسیم کے بقول اس قانون کے اندر بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اس میں خواجہ سراء کی جو تعریف کی گئی تھی وہ عالمی معیار کی نہیں تھی، اس کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
پاکستانی ادارے، علماء انٹرنیشنل کمیشن فار جوریسٹس اور ہیومن رائٹس واچ جیسے عالمی اداروں نے بھی اس قانون میں موجود خواجہ سراء کی تعریف پر اعتراضات اٹھائے تھے کہ یہ پاکستان کہ علاوہ دنیا کی کسی ملک میں موجود نہیں، اس سے آگے مسائل پیدا ہوں گے اور وہی ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ میں یہ قانون پاس ہوا اور دو ہزار 23 میں وہی مسائل پیدا ہوئے جن کی پہلے سے نشاندہی کی گئی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس قانون کے بعد خواجہ سراؤں کے حقوق ختم نہیں ہوتے، اس کے لیے کوئی طریقہ کار بنائیں گے جو سب کو قابل قبول ہو اور جس سے خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحفظ ہو۔
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایک کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکا خیل نے بتایا کہ جب یہ قانون بنا تو بہت سارے کیسز تھے، خواجہ سراء ہمارے پاس آتے تھے ہم عدالت کے ذریعے ان کی جنس کے حوالے سے حکم جاری کرواتے تھے۔
محب کاکاخیل کا کہنا تھا کہ ہم پرامید تھے کہ اس قانون میں جو پیچیدگیاں موجود ہے پارلیمنٹ کے ذریعے اس میں ترامیم کرکے اس کی تصحیح کی جائے گی لیکن اب وفاقی شرعی عدالت نے اس کو قرآن اور سنت کی روشنی میں دیکھا اور اس میں بہت ساری چیزیں ختم ہو گئی اور اس سے جو فائدہ خواجہ سراوں کو ملتا تھا وہ ختم ہوگیا۔
محب کاکاخیل نے بتایا کہ ایک سیکسں ہوتا ہے ایک جینڈر، ایک بائلوجیکل ہوتا ہے جبکہ جینڈر آپ کی اپنی سوچ پر ہے کہ آپ خود کو کیا کہتے ہیں، اس قانون میں ان دونوں چیزوں کو مکس کیا گیا تھا۔ قانون ختم ہونے کے بعد اب ایسا نہیں ہوگا، خواجہ سراء نہ اب عورت اور نہ ہی مرد رہیں گے اور نہ ہی شناختی کارڈ میں ٹرانسجینڈر لکھا جائے گا۔ ٹرانسجینڈر کو ختم کیا گیا، ٹرانس سیکشویل اپنا جینڈر چینج کر سکتا ہے۔
نعمان کے مطابق خواجہ سراؤں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں جاکر اپیل کریں کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے کہ نہیں۔