باجوڑ: خواتین پولیس کی بھرتی میں کونسی رکاوٹ حائل؟
محمد بلال یاسر
فاٹا انضمام سے قبل باجوڑ میں سکیورٹی اور جرائم کی روک تھام کا سارا نظام مقامی خاصہ دار اور لیویز فورس کے سپرد تھا تاہم 2018 میں سابقہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اپریل 2009 میں پولیس کا نظام ضم اضلاع تک بڑھا دیا گیا جن میں ضلع باجوڑ بھی شامل ہے۔
ملک میں چھٹی مردم شماری کے مطابق ضم اضلاع کی آبادی 50 لاکھ ہے جس میں تقریباً نصف خواتین ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سابقہ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر ریجنز میں تعینات 25 ہزار 879 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 50 کے قریب خواتین اہلکار ہیں جبکہ باجوڑ میں 2800 پولیس اہلکاروں میں ایک بھی مقامی خاتون اہلکار شامل نہیں۔
خیال رہے کہ باجوڑ میں اس وقت 10 لیڈی پولیس کانسٹیبلز خدمات انجام دے رہی ہیں جو ملک کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ انضمام سے پہلے ضم اضلاع میں خاصہ دار اور لیویز فورس کی تعداد 29 ہزار 821 تھی جبکہ پولیس ایکٹ 2019 کے تحت 25 ہزار 879 اہلکار پولیس میں ضم کر دیے گئے تاہم اب بھی دہشت گردی کی لہر میں ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر معلطل، دوران ڈیوٹی شہید اور ریٹائرڈ ہونے والے 3 ہزار سے زائد اہلکاروں کی آسامیاں خالی ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس کے قوانین میں بھرتی میں 10 فیصد کوٹہ خواتین کے لیے مختص ہے اور اس بنیاد پر ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد تین ہزار ہونی چاہیے مگر اب بھی ضم اضلاع 50 کے قریب خواتین اہلکار تعینات ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے باجوڑ پولیس کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رجعت پسندی مقامی رسم و رواج اور رہائش کی مناسب سہولیات کا فقدان باجوڑ کے محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
انہوں کہا کہ پولیس میں خواتین کی تعیناتی سے ان کی جنس یعنی خواتین کے مسائل سے موثر انداز میں نمٹا جا سکے گا۔ پولیس میں خواتین سے متعلق مسائل کو مؤثر طریقے سے نمٹانے کے لیے ہر ضلع میں خواتین پولیس کا ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے باجوڑ میں اب تک ایک بھی مقامی خاتون پولیس میں تعینات نہ ہوسکی۔
محکمہ پولیس کے مطابق باقی ضم شدہ اضلاع کی طرح باجوڑ میں بھی 30 خواتین پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے گا جبکہ اس مقصد کے لیے خیبر پختونخوا پولیس نے قومی اخبارات میں ایک اشتہار بھی شائع کیا تھا جس میں خواتین سے ایٹا ٹیسٹ کے ذریعے لیڈی پولیس کانسٹیبل کے عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں لیکن کسی بھی خاتون نے اس پوسٹ کے لیے درخواست نہیں دی۔
تقریباً چھ ماہ کے وقفے کے بعد، ذرائع نے بتایا کہ صوبائی محکمہ پولیس نے اس امید کے ساتھ دوبارہ پوسٹ کا اشتہار دیا کہ خواتین درخواست دیں گی لیکن دوبارہ بھی کسی خاتون نے اس پوسٹ کے لیے درخواست نہیں دی۔
قبائلی امور پر دسترس رکھنے والے ملک شاہ ولی خان ماموند کہتے ہیں کہ مقامی رواج خواتین میں پولیس کی بھرتی کے لیے سب سے بڑی روکات ہے کیونکہ یہ روایات خواتین کو مردانہ بالادستی کے ماحول میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ان کے بقول فاٹا انضمام بہت جلدی میں کیا گیا، پولیس سسٹم اس سے بھی زیادہ جلد نافذ کیا گیا عوام کو اس سے ہم آہنگ ہونے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن پھر بھی ہم پر امید ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اسے قبول کرلیں گے اور مقامی خواتین باجوڑ پولیس کا حصہ بن جائیں گی۔
ملک عثمان ایک نوجوان سوشل ایکٹویسٹ ہیں۔ ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ باجوڑ میں خواتین پولیس کی تعیناتی میں اگرچہ ایک بڑی روکاؤٹ مقامی کلچر اور سخت رواج ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں خواتین پولیس کے لیے مناسب رہائش کا نہ ہونا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث کئی خواتین اہلکار مناسب رہائش نہ ملنے کے باعث اپنا ٹرانسفر کروالیتی ہے اور مقامی لوگ مایوس ہوکر اپنے بچیوں کو پولیس میں تعینات نہیں کرواتے ۔
ان تمام وجوہات کے باوجود بھی باجوڑ پولیس کی ذمہ داران پرامید ہیں کہ یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا، عوام میں تعلیم اور شعور کے بیداری کے ساتھ ساتھ خواتین دیگر محکموں کی طرح پولیس میں بھی جاب کرنے لگ جائیں گی اور باجوڑ کے ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی۔