دیربالا میں سفیدے کے درخت شہریوں اور الرجی کے مریضوں کیلئے وبال جان مگر کیسے؟
سید زاہد جان دیروی
ضلعی ہیڈ کوارٹر دیر سمیت ضلع دیربالا کے مختلف علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود سفیدہ کے درخت شہریوں اور خاص کر الرجی کے مریضوں کیلئے تکلیف کا باعث بن گئے ہیں۔ سفیدے کے درختوں سے اڑنے والی سفید روئیوں (مالوچ ) سے الرجی مریضوں کے علاوہ راہ چلتے , گھروں اور دفاتر میں موجود عام شہریوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
دیر سے تعلق رکھنے الرجی کی شکار مریضہ یاسمین بی بی جو پیشے کے لحاظ سے سکول ٹیچر ہے نے ٹی این این کو بتایا کہ ان سمیت دیگر لوگ جو دمہ اور دیگر الرجی کے شکار ہوتے ہیں وہ اپریل ،مئی کے مہینوں میں سفیدے درختوں سے اڑنے والے روئیوں سے بہت پریشان ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے سانس بار بار بند ہوتی ہے۔
یاسمین بی بی نے کہا کہ اس دوران نہ صرف ڈیوٹی جاتے وقت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ راہ چلتے ہوئے اور گھروں کے اندر بھی یہ روئیاں اڑکر پہنچ جاتی ہیں اور الرجی بڑھنے کے ساتھ گھروں کو بار بار انتہائی گندہ کرتے ہیں اس کے علاوہ کھانے کی چیزوں میں بھی مل جاتی ہے۔
مقامی باشندے ذیشان احمد کے مطابق سفیدہ کے درخت ہمارے گھروں کے اطراف سڑکوں اور دیگر مقامات پر موجود ہے اور ہر سال سیزن کے تینوں مہینوں میں ہمارے ساتھ ہزاروں لوگوں کی زندگی اس سے اجیرن ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز ایک رشتہ دار کو جسے الرجی کا مرض لاحق ہے سانس بند ہونے پر فوری ہسپتال منتقل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انکو کسی قسم کی الرجی نہیں اور بالکل صحت مند ہے لیکن سڑک پر پیدل چلتے ہوئے یہ روئیاں منہ اور ناک میں جانے سے سینے اور گلے میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور انکی طرح اس سے روزانہ ہزاروں افراد کو اس سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور صحت مند لوگ بھی بیمار پڑجاتے ہیں۔ ذیشان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور فارسٹ والے اس کا نوٹس لیں اور ایسے بیمار کش درختوں پر پابندی لگائے تاکہ عوام اور الرجی مریض مشکلات کا شکار نہ ہو۔
ایم ایس ڈاکٹر آمتیاز احمد نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ اپریل اور مئی کے مہینے میں سفیدے کے درختوں سے لوگوں کو بہت تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان درختوں سے اڑنے والی روئی کے باعث لوگ مختلف الرجی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دمہ، انٹرنل الرجی سمیت دیگر مریض جن کو سانس لینے میں تکلیف ہو خواہ وہ گھروں میں موجود ہو، راہ چلتے یا کام کے مقامات دفاتر میں موجود ہو تو ان کیلئے یہ روئی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھولن الرجن کی ایک قسم ہے لیکن پھولن الرجی درخت کے قریب سے گزرنے یا موجودگی سے مریض کو تکلیف ہوتی ہے لیکن سفیدے درختوں سے اڑنے والے روئیوں کو فارن باڈی الرجی کہتے ہے جو ایک جگہ سے اڑکر دوسر ے جگہ تک پہنچ جاتی ہے۔
ڈاکٹر امتیاز نے تجویز دی ہے کہ اس سیزن میں الرجی کے شکار خصوصا اور شہری ماسک پہننے کو ترجیح دیں تو اس سے بڑی حد تک بچ سکتے ہیں کیونکہ اس سے دمہ ،سانس بند ہونے والے مریضوں کو تو مشکلات ہوتی ہی ہے لیکن چونکہ یہ فارن باڈی الرجی کی ایک قسم ہے اور اڑتی روئیاں براہ راست منہ اور ناک میں چلی جاتی ہے تو اس سے عام لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری جانب محمد عثمان خان ڈی ایف او اپردیر ڈویژن نے سفیدے درختوں سے مریضوں اور عام شہریوں کو مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک کیش کراپٹ ٹری ہے خصوصآ چارسدہ،صوابی کے علاقوں میں جس سے زمینداروں کو سالانہ بہت زیادہ آمدن ہوتا ہ۔ اور وہاں کے لوگ چار،پانچ سال بعد کچے درخت کاٹ کرفروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یاس حوالے سے کام کریں گے کیونکہ اگر ایسے درختوں سے لوگوں کو مشکلات ہو تو اس پرتوجہ مرکوز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فارسٹ کے اعلی حکام اس پر بابندی یا متبادل ٹریز لگانے کا حکم دیں گے تو ضرور اس کو فالو کیا جائے گا تاہم فارسٹ ذرائع کے مطابق ان درختوں سے جہاں لوگوں کو مشکلات درپیش ہے تو دوسری جانب سالانہ سفیدے کے سات سے آٹھ سو ٹرک گاڑیاں دیر سے ملک کے دیگر حصوں میں فروخت کرنے سے کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفیدے کا درخت ماچس کی تیلیاں ، کرکٹ بیٹس، سبزیوں اور پھلوں کیلئے کیریٹ اور کسنٹرکشن میں بطور شیٹرینگ بھی استعمال کیا جاتی ہے۔