لائف سٹائل

باجوڑ میں ماربل فیکٹریوں کا گندا پانی جانداروں کیلئے خطرہ بن چکا ہے

 

تحریر: محمد بلال یاسر

ضلع باجوڑ ماندل میں ماربل کی فیکٹریوں سے نکلنے والے گندے پانی نے مقامی افراد کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ گندے پانی نے نہ صرف زمین کو ناقابل کاشت بنادیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے آبی حیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

عبدالرحمان کا تعلق ماندل باجوڑ سے ہے وہ پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں واقع ماربل فیکٹریوں سے نکلنے والے گندے پانی سے بے حد پریشان ہیں۔ ان کا کہنا کہ باجوڑ میں ماربل فیکٹریوں سے نکلنے والے زہر آلودہ پانی سے ہزاروں ایکڑ زمین ناقابل کاشت ہوچکی ہیں جبکہ مزید بھی تباہی جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس گندے پانی سے صاف پانی گندا ہوکر مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات کا خاتمہ کررہی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ ان فیکٹریوں سے نکلنے والے زہر آلودہ پانی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اس گندے پانی کو ٹھکانے لگانے کیلئے فوری طور پرا قدامات کیے جائیں۔

باجوڑ میں مختلف مقامات پر پچاس سے زائد ماربل فیکٹریاں ہیں۔ ان فیکٹریوں میں سینکڑوں افراد برسر روزگار ہیں، باجوڑ کے پہاڑوں میں ہی کثیر پیمانے پر ماربل کے ذخائر موجود ہیں مگر اس کی کٹائی اور تیاری کے دوران فیکٹری میں اس سے خارج ہونے والا کیمیائی فضلہ ندی نالیوں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف آبی حیات سنگین خطرات سے دوچار ہے بلکہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں بہنے والے پانی کے زہر آلود ہونے کی وجہ سے انسانوں اور زرعی زمینوں کو بھی خطرات کا سامنا ہے۔

باجوڑ میں تحصیل ماموند کے علاقے تنی ، تحصیل خار کے علاقے شیخ کلے میں 1998 کے بعد یہ فیکٹریاں قائم ہوئی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا ، ان علاقوں میں قائم 50 سے زائد سنگِ مرمر کے کارخانوں کا فضلہ قریبی ندی نالوں گرا دیا جاتا ہے۔ یہ پانی آگے جاکر ناوگئی اور ماموند سے آنے والے صاف پانی کے نہر (خوڑ) میں شامل ہو جاتا ہے جس میں جگہ جگہ صاف پانی کے چشمے تھے جو اس فضلے کے باعث خشک ہوگئے اور جاری صاف پانی بھی گدلا ہوگیا۔

دوسری جانب ماربل کارخانہ ایسوسی ایشن کے صدر طفیل خان نے بتایا کہ سنگِ مرمر کا کارخانہ لگاتے وقت مالک کو تحریری طور پر اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ کیمیائی فضلے کو وہ خود ٹھکانے لگائے گا۔ حکومت اس پر وقت بوقت جرمانے لگاتی ہے مگر محکمانہ سطح پر تاحال ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہو سکے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنا فضلہ ان ندیوں میں گرایا جاتا ہے۔

ماحولیات پر کام کرنے والے کلیم اللہ خان کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق ہر ماربل فیکٹری کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک سیفٹی ٹینک بنائے۔ بورنگ سے نکلا ہوا پانی استعمال کے بعد اس سیفٹی ٹینک میں جمع کیا جائے گا۔ اگر کوئی کارخانہ اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی لیکن یہاں ان کارخانہ مالکان کے خلاف مستقل کاروائی نہیں ہوئی کیونکہ فاٹا چند سال قبل ہی خیبرپختونخوا میں ضم ہوا جس کے بعد ہی یہاں ڈیپارٹمنٹ منتقل ہونا شروع ہوئے ہیں مگر تاحال یہاں تحفظ ماحولیات کا کوئی دفتر اور ادارہ نہیں۔

ماہر ماحولیات کفایت اللہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں کارخانوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کارخانے لگانے والوں کو ماحول کا بھی خیال رکھنا ہو گا اور اس کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کارخانہ آبی، فضائی یا زمینی ماحول کو خراب کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر انوائرمینٹل پروٹیکشن ٹریبونل کارخانہ مالکان کو معمولی سا جرمانہ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد کارخانہ دار ماحول اور آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔

باجوڑ کے نامور تاجر رہنما عمران ماہر کہتے ہیں کہ ان کارخانوں سے نکلنے والی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے کئی مرتبہ ان کارخانہ مالکان کے ساتھ ملکر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کی لیکن صرف وعدے کئے جاتے ہیں اور ابھی تک عمل نہیں کیا گیا۔

ان کی تجویز ہے کہ اگر ان کارخانوں کے قریب ہی ان کارخانوں کے فضلے کے گرانے کے لئے جگہ کو مختص کر دیا جائے تو اس مسئلہ کو احسن طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button