لائف سٹائل

آزادی صحافت کا عالمی دن: صحافیوں کی ذاتی زندگی کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟

محمد فہیم

اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے جو افراد کو حکومت یا دیگر حکام کی طرف سے سنسر شپ یا روک ٹوک کے بغیر اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم بات کرنے کی آزادی لوگوں کو آن لائن دھمکیوں اور ہراسگی کا حق نہیں دیتی۔ آن لائن ہراسگی اور دھمکیاں دراصل الیکٹرانک مواصلات کا استعمال ہے کسی کو دھمکانے یا ہراساں کرنے کے لیے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ٹیکسٹ پیغامات، یا ای میل کا استعمال کیا جاتا ہے۔

سائیبر بلنگ یا سائبر دھونس بہت سی شکلیں لے سکتی ہے، بشمول افواہیں پھیلانا، توہین آمیز تبصرے کرنا، شرمناک تصاویر یا ویڈیوز کا اشتراک کرنا، اور آن لائن کسی کی نقالی کرنا۔

اگرچہ آزادی اظہار افراد کے اپنے خیالات اور خیالات کے اظہار کے حق کا تحفظ کرتی ہے لیکن اس کا دائرہ سائبر دھونس تک نہیں ہے جو کہ ہراساں کرنے کی ایک شکل ہے اور اس کے شکار کی ذہنی صحت اور تندرستی پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سائبر دھونس کچھ معاملات میں غیر قانونی بھی ہو سکتی ہے، یہ ہراساں کیے جانے کی نوعیت اور دائرہ اختیار کے قوانین پر منحصر ہے جہاں یہ ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے صحافیوں کو اکثر سائبر دھونس اور ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے خاص طور پر جب ان کی رائے یا رپورٹنگ بعض افراد یا گروہوں کے لیے متنازعہ یا تنقیدی ہو۔ یہ ایک متعلقہ رجحان ہے کیونکہ یہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی پر ٹھنڈا اثر ڈال سکتا ہے، جو ایک فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہیں۔

سینئر صحافی اور پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی کہتی ہیں کہ آج کے زمانے میں صحافی کیلئے خبر دینا صحافت کرنا اور بات کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے، سوشل میڈیا میں اس وقت ایسی نسل کی ایک یلغار ہےجس میں لحاظ شرم اور دلیل نہیں ہے بس ایک شخصیت پرستی ہے جس کے نتیجے میں دوسرے بندے کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ایسے میں آپ بات نہیں کرسکتے اگر دیکھائے تو آزاد رائے کی بھرپور آزادی ہے جس میں آپ کو ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے برا بھلا کہتا ہے لیکن آزادی صحافت نہیں ہے کیونکہ آزادی صحافت کا رشتہ سچ کے ساتھ ہے.

ان کے بقول آج جو آزادی رائے موجود ہے وہ اصل میں اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں جو خبر سے منسلک نہیں ہے جس کے باعث خبر گم ہوگئی ہے اصل خبر کسی کو پسند نہیں آتی جس پر آپ کیخلاف ایک مہم شروع ہوجاتی ہے جس میں کوئی حدود نہیں ہوتیں اور آپ کے لئے بات کرنا شروع ہوجاتا ہے۔

فرزانہ علی نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر مرد صحافیوں کو رشوت خور اور لفافہ کہتے ہیں لیکن خواتین کے لئے رنڈی، جسم فروش اور کردار کشی کی حد تک گرے ہوئے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جس کے بعد خاندان والوں کی طرف سے دباﺅ پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بات ہی نہ کریں، مجھے گھر والوں سے کسی دباﺅ کا سامنا نہیں لیکن وہ بھی خوف زدہ ہوتے ہیں کہ کس طرح کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے گھر والے صرف یہی کہتے ہیں کہ احتیاط کریں۔

دوسری جانب پریشر گروپس نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے لوگ بٹھا دئے ہیں، دہشتگردی کے حوالے سے بات کریں تو کہتے ہیں کہ ملک کیخلاف ہیں، سیاست پر بات کریں تو پارٹی بازی شروع کردیتے ہیں جبکہ اگر معاشرتی بگاڑ پر بات کریں تو مغرب پرور کہا جاتا ہے۔ اس وقت سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی کی جانب جا رہے ہیں جس کے باعث بات کرنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ حالات مسلسل بدتر ہوتے جا رہے ہیں ریاست کو ایسے گروپوں کے سر سے ہاتھ اٹھانا ہوگا جو یہ سب کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا اگرچہ آزادی اظہار ایک بنیادی حق ہے لیکن یہ مکمل حق نہیں ہے۔ آزادی اظہار کی حدود ہیں، خاص طور پر جب بات ایسی تقریر کی ہو جو نفرت، تشدد یا امتیاز کو فروغ دیتی ہو۔ سائبر دھونس کے معاملے میں، یہ جاننا ضروری ہے کہ اس رویے سے ہونے والا نقصان آزاد اظہار کے کسی بھی ممکنہ فوائد سے زیادہ ہے۔ اس لیے سائبر دھونس کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا بہت ضروری ہے، جس میں لوگوں کو اس کے اثرات سے آگاہ کرنا، اس کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین کا نفاذ، اور متاثرین کے لیے مدد اور وسائل فراہم کرنا شامل ہے۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کہتے ہیں کہ اس کی شروعات تب ہوئیں جب سیاسی جماعتوں نے اپنی سوشل میڈیا ونگز لانچ کردیں اور یہ کسی ایک پارٹی نے نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں نے اب یہی کام شروع کردیا ہے حتی کہ اب تو سرکاری محکموں نے اپنے سوشل میڈیا پیچز ، اکاﺅنٹس اور ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں اگر کوئی بھی خبر ان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی تو پھر بغیر کسی طریقہ کار کو سمجھے بغیر صحافی کو دبانا شروع کر دیتے ہیں۔

افتخار کے بقول کسی بھی صحافی کی خبر سے اختلاف رکھتے ہوئے اس پر وضاحت یا تردید جاری کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جو سرکاری محکموں کو بھی نہیں معلوم وہ براہ راست صحافی کو دباﺅ میں لانا شروع کردیتے ہیں۔ افتخار فردوس کے مطابق پاکستان میں کوئی قواعد و ضوابط نہیں ہیں ماضی میں لوگ ایسے خاص گروپس رکھتے تھے جو صحافیوں کو دباتے تھے تاہم اب جعلی اکاﺅنٹس بنا کر اس میں گالم گلوچ اور دھمکیاں شروع کردیتے ہیں بلکہ اب تو ایک اور کام شروع کردیا گیا ہے کہ ذاتی زندگی کو نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کی سیکورٹی اور سچ سامنے لانے کے لئے ایسے پلیٹ فارم نہیں ہیں ادارے اور قوانین بہت زیادہ ہیں لیکن اس کا اثر اب تک ہم نے نہیں دیکھا، دوسری جانب سیاسی جماعتیں اس سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ اس گالم گلوچ اور دھمکیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دراصل یہ انکا معاملہ سے الگ ہونے کا ایک حربہ ہے۔

یہاں یہ ماننا بھی کرنا ضروری ہے کہ صحافیوں کو انتقام یا ہراساں کیے جانے کے خوف کے بغیر عوامی مفاد کے مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرنے اور رپورٹ کرنے کا حق ہے۔ سائبر دھونس اور ہراساں کرنے کی دوسری شکلیں نہ صرف صحافیوں کے لیے جذباتی طور پر تکلیف دہ ہو سکتی ہیں بلکہ یہ ان کی اپنا کام مؤثر طریقے سے کرنے اور آزاد اور کھلے معاشرے میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button