لائف سٹائل

‘ریل پٹری کے کنارے سستی دکانیں جہاں غریب لوگ بچوں کو عید کے کپڑے دلا سکتے ہیں’

شازیہ نثار

پشاور میں ریل کی پٹری کنارے دیواروں پر ٹانکے یہ صرف کپڑے نہیں بلکہ ان غریبوں، یتیموں اور مفلس سفید پوشوں کی عید کی خوشیاں ہے جو ان موسمی دکانوں میں غریبوں کو کم قیمت پر خریدنے کو مل جاتی ہے۔

عید الفطر (چھوٹی عید) مسلمانوں کے لئے مقدس مذہبی تہوار ہے اور امیر غریب سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عید پر نئے پہناوے زیب تن کرے لیکن بدقستمی سے مہنگائی کے اس دور میں بھوک افلاس اور غربت کے ستائے غریب عوام اب عید پر نئے کپڑوں کی خواہش نہیں صرف حسرت ہی کر سکتے ہیں’ کہ کاش وہ بھی عید پر نئے کپڑے خرید سکتے۔’

پشاور فردوس ریلوے پھاٹک پر سجے موسمی دکانوں میں جہاں غریب کی خوشیاں شہر اقتدار کی مختص شدہ قیمتوں سے کافی کم قیمت پر بکتی ہیں۔ عید الفطر کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے بچے، بوڑھے ،جوان اور خصوصی طور پر خواتین کی بڑی تعداد ان بازاروں کا رخ کر رہی ہے۔ ان دکانوں میں نئے تیار شدہ مردانہ کپڑے 150 روپے سے لیکر 600 روپے تک با آسانی مل جاتے ہیں ۔ خواتین بھی بچوں کے لئے سلائی کی جھنجٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہاں سے سلا سلایا سوٹ کم قیمت پر خریدنے آتی ہیں۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے موسمی دکان سجانے والے دکاندار حاجی نور عالم نے بتایا کہ یہ سب نئے کپڑے ہیں یہاں پر غریب طبقہ آتا ہے باہر بازار میں لوگ ہزار روپے کا کپڑا خرید کر پھر ہزار روپے پر ٹیلر سے سلواتے ہیں جبکہ یہاں ہر طرح کے ناپ اور بچوں کیلیے خوبصورت رنگوں کے کپڑے ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کپڑوں کی سلائی یہی افغان مارکیٹ میں کی جاتی ہے اور دکاندار خرید کر یہاں فروخت کرتے ہیں۔ دکاندار کے مطابق پہلے 80 روپے فی گز کپڑا ملتا تھا اب وہی کپڑا 140 روپے ملتا ہے ورنہ یہاں پر یہ کپڑے مزید سستے داموں فروخت ہوتے۔

فردوس پھاٹک میں موجود ایک اور دکاندار محمود خان نے بتایا جو غریب شہری عید پر اپنے بچوں کے لئے کپڑے نہیں خرید سکتے وہ یہاں سے 3 سے 4 سو روپے تک اچھا سے اچھا سوٹ اپنے بچوں کے لئے خرید سکتے ہیں اور ان کی عید خوشی سے گزر سکتی ہے۔

دکاندار نے بتایا کہ باہر دکانوں میں یہی سلے کپڑے 1000 سے 1500 تک ملتے ہیں اور دکاندار اپنے دکانوں کا کرایہ اور باقی خرچے وصول کرتے ہیں جبکہ ہمارے کرایے اور دوسرے خرچے نہیں ہوتے اس لیے سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔

سفید داڑھی ،سر میں پہنی سفید ٹوپی مگر ماتھے پر پریشانی اورآنکھوں میں تجسس لئے 60 سالہ جوہر علی کبھی ایک دیوار پر آویزا کپڑوں کو دیکھتے تو کبھی دوسری دیوار پر نظر دوڑاتے پٹڑی پر ادھر ادھر اپنی پسند کے کپڑے ڈھونڈنے میں مصروف تھے جب میں نے سلام کر کے متوجہ کیا تو بولے کپڑے دیکھ رہا ہوں۔ مہنگائی میں ان جیسے لوگ صرف اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے قابل بھی شاید اب نہ رہے۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کی تو ضد اور خوشی عید پر نئے کپڑے دلانے کی ہوتی ہے بس یہاں آیا ہوں تاکہ اپنے اور بچوں کے لئے عید کی تیاری کرسکوں۔ انہوں نے یہ غریب کے لئے نعمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں خوبصورت اور کڑھائی والے اچھے کپڑے مل جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ فردوس پھاٹک بازار ان سفید پوش لوگوں کے لئے مہنگے پہناوے کا بھرم ہے جو مہنگائی کے اس طوفان میں مشکل سے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔

عیدالفطر جہاں اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ منائی جاتی ہے تو وہی اگر اس بات کو بھی ملحوط خاطر رکھا جائے کہ عید کی خوشیوں میں یتیم، بے سہارا اور غریبوں کو بھی شامل کیا جائے تو عید کی خوشیاں دوبالا ہوجائیں گی۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button