باجوڑ: اٹلی کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والی آخری شخص کی لاش مل گئی
مصباح الدین اتمانی
اٹلی کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے باجوڑ کے رہائشی رحیم اللہ خان کی میت 30 دن بعد آبائی گاؤں پہنچا دی گئی اور ان کی تدفین آج شام تحصیل ماموند لر خلوزوں کے مقامی قبرستان میں کی جائے گی۔
اٹلی کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے 67 افراد میں آخری لاش رحیم اللہ خان کی تھی جو 16 مارچ کو ملی تھی، قانونی مراحل کی تکمیل کے بعد ان کی میت آج صبح ساڑھے چھ بجے برٹش ائیرویز کے زریعے اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچا دی گئی جہاں سے انہیں باجوڑ روانہ کیا گیا۔
ٹی این این سے گفتگو میں رحیم اللہ خان کے بڑے بھائی عثمان خان نے بتایا کہ رحیم اللہ پانچ مہینے پہلے اپنی بیوی، بیٹی اور 13 سالہ بیٹے بشام خان کو الوداع کہہ کر یورپ روانہ ہوئے تھے اور آج ان کی میت گاؤں پہنچ چکی ہے جس سے پورے گھر میں سوگ کا سماں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ بھائی نے غربت اور بے روزگاری کے باعث یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ یہاں سے پہلے ویزٹ پر ترکی گئے اور وہاں سے اٹلی جانے کی کوشش میں تھے، وہ اس پہلے مسلسل سات بار ناکام ہوئے تھے اس لئے انہوں نے آخری بار کوشش کرتے ہوئے کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا۔’
عثمان نے بتایا کہ اس روز جب یہ حادثہ رونما ہوا ، بھائی ہم سے رابط میں تھے اور 10 منٹ پہلے فون پر بتایا کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے جس سے ہمیں تسلی ہوئی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ دس منٹ بعد بھائی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کشتی الٹنے کی خبر اس حادثے میں بچ جانے والے بھائی کے دوست نے دی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم بھائی کے بچ جانے کے لئے دعائیں کر رہے تھے تاہم ہماری مشکلات اس وقت بڑھ گئی جب تمام تر کوششوں کے باوجود بھائی کی لاش نہیں مل رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اٹلی کشتی حادثہ: ‘ شاہدہ کی زندگی پر معاشی بحران کا گہرا اثر تھا’
یاد رہے کہ ترکیہ سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی گزشتہ ماہ 26 فروری کو سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 67 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
رحیم اللہ خان کون تھے؟
فضل امین 38 سالہ رحیم اللہ خان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہے اور انہوں نے رحیم اللہ کے ساتھ ایک ہی کمپنی میں 2 سال گزارے ہیں اس لئے وہ ان کو اپنا استاد مانتے تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رحیم اللہ نے کئی عرصہ سعودی عرب کے ایک الیکٹریکل کمپنی میں بطور انجینئر خدمات سر انجام دی ہے جبکہ سعودی حکومت نے مہارت اور تجربے کی بنیاد پر انہیں 10 سالہ سروس کارڈ دی تھی۔
فضل امیں کہتے ہیں کہ رحیم اکثر کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں انصاف نہیں ہے جبکہ باہر ممالک کے لوگ انصاف پسند ہے اس لئے مجھے یہاں سے یورپ جانا ہے، بچوں کا مستقبل بنانا ہے اور اچھی زندگی گزارنی ہے۔
انہوں نے رحیم کی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میں رحیم اللہ کے زیرنگرانی کام کرتا تھا انہوں نے مشکل وقت میں مجھے سپورٹ کیا اور مجھے کام سیکھایا، اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی تھی، یہاں سعودی عرب میں ساڑھے تین ہزار ریال تنخواہ ملتی تھی لیکن شاید ان کی موت وہاں لکھی گئی تھی اس لیے انہوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔
‘غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ’
انٹرنیشنل سنٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ہزاروں پاکستانی نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے غیر قانونی راستوں سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں جبکہ 2017 اور 2020 کے درمیان، تقریباً 21 ہزار 405 پاکستانی غیر قانونی راستوں سے یورپی ممالک داخل ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے 28 رکن ممالک میں پاکستانی شہریوں کی پہلی بار سیاسی پناہ کے حوالے سے 2015 میں 46 ہزار 510 جبکہ 2016 میں 47 ہزار 655 درخواستیں موصول ہوئیں، اس کے بعد سے یہ تعداد 25 ہزار سے اوپر رہی جبکہ پچھلی دہائی میں اٹلی پاکستانی پناہ کے متلاشیوں کے لیے یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا۔
یورپ جانے کا قانونی راستہ کیا ہے؟
فرانس میں مقیم باجوڑ کے رہائشی محمد آیاز کے مطابق اگر کوئی قانونی راستوں سے یورپ جانے چاہتے ہیں تو وہ ورک پرمٹ ویزے سمیت مخلتف تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں اور محفوظ راستوں سے یورپ جا سکتے ہیں۔
آیاز بھی غیر قانونی راستوں سے فرانس پہنچے ہیں ان کے مطابق انہیں راستے میں کہی طرح کے مشکلات پیش آئے جبکہ ان کی کشتی بھی حادثے کا شکار ہوئی تھے تاہم خوش قسمتی سے وہ بچ گئے تھے، ان کا دعویٰ ہے ہم موت سے کھیلتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
دوسری طرف وفاقی تحقیقاتی ادارے(FIA) نے کارروائی کر کے اٹلی کشتی حادثے کے مقدمے میں ملوث ملزم عبیداللہ کو گجرات سے گرفتار کیا ہے، عبیداللہ مرکزی ملزم آفاق کا بھائی ہے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ عبیداللہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہریوں سے رقم بٹورتا اور لیبیا میں مقیم بھائی کو بھیجتا تھا۔
ڈی جی ایف آئی اے نے غیر قانونی بارڈر پار کرنے والوں کے حوالے سے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی اسمگلنگ جیسے جرم میں ملوث عناصر معافی کے مستحق نہیں، انسانی اسمگلرز اور ان کے سہولت کار بین الاقوامی مجرم ہیں جن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں گے۔