لائف سٹائل

‘خواتین کے بغیر نشریاتی اداروں میں تنوع کی فضاء قائم کرنا ممکن نہیں’

خیبر پختونخوا میں صحافت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا اداروں میں خواتین کو فیصلہ سازی کی سطح پر شامل کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بغیر نشریاتی اداروں میں تنوع کی فضاء قائم کرنا اور نشریاتی مواد متنوع بنانا ممکن نہیں ہے۔

پشاور میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک ( ٹی این این) کی جانب "ڈایورسٹی ان میڈیا – مشکلات اور مواقع” کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سینئیر صحافیوں، اساتذہ، میڈیا ٹرینرز کے علاوہ کثیر  میں خواتین اور مرد صحافیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر میڈیا سے وابستہ ماہرین اور شعبہ صحافت کے اساتذہ کرام نے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین سمیت مختلف مرجنلائنزڈ کمیونیٹیز کو منصفانہ جگہ نہیں دی جاتی خواہ وہ اداروں میں خبریں بنانے والے ملازمین کی شکل میں ہو یا نشریاتی مواد کی صورت میں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی میں جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ جان نے شرکاء کو بتایا کہ ہمارے معاشرے کی طرح بدقسمتی سے ہمارے میڈیا پر بھی مرد حضرات کا غلبہ ہے، خواتین کو صرف پریزینٹیشن کے لئے مختص کیا گیا ہے، جب تک خواتین کو خبر رپورٹ کرنے (رپورٹر) اور فائل کرنے (ایڈیٹر) کے طور پر سامنے نہیں لایا جائے گا تب تک نشریاتی مواد میں ان کی اصل نمائندگی ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جو خواتین رپورٹنگ میں آتی ہیں انہیں ایسے بیٹس دیئے جاتے ہیں جن میں کیرئیر بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، نیوز رومز کے اندر بھی ماحول خواتین کے لئے سازگار نہیں سمجھا جاتا جبکہ اس کے علاوہ ان کے دفتر آنے جانے کا خاص انتظام بھی نہیں ہوتا۔ یہ سارے عوامل خواتین کو اس شعبے میں آگے جانے سے روکتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ جان نے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے کورسز میں بھی ڈایورسٹی (تنوع) اور انکلیوسیویٹی سے متعلق مزید مواد شامل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ان درسگاہوں سے ہی طلباء کی ذہن سازی ہوتی ہے جو کہ آگے جا کر فیلڈ میں ان کے کام آتی ہیں۔

سیمینار کے آغاز میں ٹی این این کے ڈائریکٹر سید نذیر آفریدی نے سیمینار کے اعراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو اپنے علاقے اور تمام لوگوں کا عکاس ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں خواتین سے متعلق موضوعات پر مرد حضرات بات کرتے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر وہ لوگ بات کرتے ہیں جو وہاں گئے ہی نہیں، معذوروں اور خواجہ سراؤں پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل پر غور کرنے اور یہ روایات بدلنے کی شدید ضرورت ہے وگرنہ آنے والی نسلیں ہمیں ان غلطیوں کے لیے کبھی معاف نہیں کرے گی۔

سید نظیر نے مزید بتایا کہ ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ان پرانے پلیٹ فارمز جیسے کے ریڈیو، ٹی وی، اخبار کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ میڈیا اداروں کو آبادی کے اس حصے تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے ٹک ٹاک اور انسٹا گرام کی ضرورت آں پڑی ہے۔ اب وہی میڈیا ادارے کامیاب ہیں جو نوجوانو تک انہیں کے پسندیدہ پلیٹ فارمز کے راستے پہنچتے ہیں۔

میڈیا میں تنوع پر بات کرتے ہوئے سید نظیر افریدی کا کہنا تھا کہ ٹی این این ان معاملات کو بہت پہلے سے نظر میں رکھتا ہے۔ ” ہم نے ابھی سیلاب پر پورے ملک میں فیلوشپ کروایا جس میں ریکارڈ 30 فیصد نمائندگی ہم نے خواتین صحافیوں کو دی” ڈائریکٹر ٹی این این نے بتایا کہ خواتین کے علاوہ ٹی این این خیبر پختونخوا کا واحد ادارہ ہے جہاں ایک خواجہ سرا اپنی صحافتی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے ایک سال میں 26 افغان مہاجرین کو بھی سیٹیزن جرنلزم کی تربیت دی گئی تا کہ وہ اپنے مسائل خود سامنے لا سکیں۔

سیمینار میں خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون ٹی وی بیورو چیف فرزانہ علی نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اپنی کامیابی سخت اور مسلسل محنت کی مرہون منت قرار دی اور کہا کہ اس مقام پر پہنچنے کے لیے انہوں نے گھر والوں کی ناراضیاں، لوگوں کے طعنے اور فیلڈ میں ساتھیوں کی منافقت سہی لیکن کبھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں۔

فرزانہ علی نے بھی میڈیا میں فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طبقہ معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے اور میڈیا میں انہیں زیادہ سے زیادہ جگہ دینے سے ہی ان کی محرومیاں کچھ حد تک کم کی جا سکتی ہیں۔

انہوں نے جرنلزم میں نئی آنے والی خواتین صحافیوں پر واضح کردیا کہ یہ فیلڈ آسان نہیں ہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہارنی۔ قدم قدم پر پیر کھینچنے والے لوگ ملیں گے لیکن اچھے ساتھیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو خواتین کو بہت سپورٹ کرتے ہیں۔

خاتون بیورو چیف نے مزید بتایا کہ ہمارے ہاں میڈیا اور بالخصوص ٹی وی سٹیشنز میں خواتین صحافیوں کی کمی کی ایک بڑی وجہ 24 گھنٹے ڈیوٹی بھی ہے جس میں ان کی ڈیوٹی کسی بھی وقت یعنی کے رات کے وقت بھی لگ سکتی ہیں۔

اس موقع پر پشاور کے سنئیر صحافی اور پشاور پریس کلب کے سابقہ صدر شمیم شاہد نے بھی صحافت کے شعبے میں خواتین کی کمی ایک بڑا نقصان قرار دیا اور کہا کہ ان کی کمی کی وجہ سے اس طبقے سے متعلق مواد بھی میڈیا پر بہت کم آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور پریس کلب میں ساڑھے پانچ سو ممبران میں صرف 18 خواتین ممبرز ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال خیبر یونین آف جرنلسٹس کا بھی ہے۔ جرنلسٹس باڈیز کے ممبران چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس فیلڈ میں آئے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر نہیں آتی۔ سینئیر صحافی نے کہا کہ 2019 سے پشاور پریس کلب میں نئی ممبرشپ پر پابندی لگائی گئی ہے کہ امسال اپریل میں ختم کی جائے گی جس سے امید ہے بہت سی نئی لڑکیاں رجسٹریشن کے لئے ایپلائی کریں گی کیوںکہ فیلڈ میں اب خواتین کے کافی نئی چہریں دیکھی جا رہی ہے۔

اس موقع پر ٹی این این سے سیٹیزن جرنلزم میں تربیت یافتہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سپشل پرسن  زاہد داوڑ نے کہا کہ معذوری کبھی ان کی کمزوری نہیں بنی جبکہ ٹی این این سے تربیت لینے کے بعد انہوں نے وہی ٹریننگ اپنے علاقے کے درجنوں نوجوانوں کو دی جو کہ آج کل ہمارا کلچر اور مثبت چہرہ سوشل میڈیا کے راستے دنیا کو دکھا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی تربیت کو بروئے کار لا کر انہوں نے اپنے علاقے میں مخیر لوگوں کے تعاون سے ایک لائبریری قائم کی ہے جبکہ اس کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں بے بس طلباء کو سکالرشپس بھی فراہم کی ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ٹی این این میں کام کرنے والے خواجہ سرا صوبیا خان نے دوسرے میڈیا اداروں پر ٹی این این کی تقلید کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر ان کے کمیونٹی کے لوگوں کو اس طرح کے مہذب پیشے دیئے جائے تو وہ معاشرے میں اچھے نام کما سکتے ہیں اور بہتر انداز میں اپنے مسائل سامنے لا سکتے ہیں۔

سیمینار سے افغانستان نے آئی خاتون صحافی نجیبہ آریان نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ سقوط کابل کے بعد جب وہ پاکستان آئیں تو بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو فاقوں کا ڈر بھی تھا تاہم پھر مقامی میڈیا ادارے وحدت ڈیجیٹل میں جلد ہی انہیں نوکری مل گئی۔

انہوں نے دیگر میڈیا اداروں پر بھی زور دیا کہ بے گھر افغان صحافیوں کو مواقع فراہم کیے جائیں، پاکستان میں دو ملین سے زائد افغان مہاجرین آباد ہیں لیکن میڈیا میں ان کے لیے کوئی مواد نہیں ہے، ان کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا، میڈیا اداروں میں افغان صحافیوں کی آمد سے ان سے جڑے موضوعات پر رپورٹنگ بھی بڑھ جائے گی اور یہ خوش آئند اقدام ہوگا۔

سیمنار سے سینئر صحافی اور میڈیا ٹرینر اورنگزیب خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا اصل کام اور مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی ہونا چاہئے لیکن یہاں بدقسمتی سے بالکل بھی ایسا نہیں ہے، ہمارے صحافیوں کی ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہیں کہ اعلیٰ طبقے کو کوریج دے، میڈیا کنٹینٹ پر بھی نظر دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ کوریج سیاست اور سیاست دانوں کو دی جاتی ہے اور باقی وقت بچتا ہے ان میں بھی مرجنلائزڈ کمیونٹی سے متعلق مواد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ان روایات اور ایجنڈا میں تبدیلی کے لئے ایک لمبا عرصہ چاہئے ہوگا لیکن امید ہے کہ ایک دن یہ تبدیلی ضرور آئے گی۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button